اسلام آباد (این این آئی)پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے وفاقی احتساب کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیشن میں تمام اسٹیک ہولڈر، سیاستدان، ججز، چاہے ملٹری کو شامل کیا جائے ٗصرف سیاستدان کرپٹ نہیں لہٰذا عدلیہ سمیت سول، ملٹری بیوروکریسی سب جوابدہ ہونے چاہئیں ٗاگر میرا احتساب میرے ساتھی نہیں کرسکتے تو پھر کوئی اور محکمے والا بھی اپنے ساتھی کا احتساب نہیں کر سکتا ٗ
ماضی میں کسی میں جرات نہیں تھی کہ اسپیکر اور چیئر مین سینٹ کے خلاف بات کرے ٗ آپ کرپشن پر بات کر کے حکومت میں آئے ہیں ٗ جو مقدمات عدالت میں زیر سماعت ہیں انہیں فلور پر زیر بحث کیوں لارہے ہیں ؟صرف سیاستدان کرپشن نہیں،معاشرے کا ہر فرد کرپٹ ہے،یکطرفہ احتساب نہیں،تمام اداروں کو حساب دینا پڑیگا ٗمشرف کابینہ کے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو 12 مئی اور ان کا مکا لہرانا یاد آ جاتا ہے۔جمعہ کو سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے رضا ربانی نے کہا کہ سینیٹ میں وہ ممبران ہیں جنہوں نے آمریت کے خلاف اور پارلیمان کی بالادستی کیلئے جانیں وقف کیں، اس سفر میں بہت اونچ نیچ آئی لیکن سیاسی کارکن اس سفرمیں گامزن رہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ روز سے محسوس ہو رہا ہے اس عمارت کی بنیادوں کے اندر دراڑیں نظر آنے لگی ہیں، وہ ایسی دراڑیں ہیں جو حسن ناصر، شہید بھٹو اوربے نظیر بھٹو کے خون سے بھی نہ بھری جائے، ایسا لگتا ہے کہ فاشٹ قوتوں کوچھوڑا گیا ہے تاکہ وہ آئین کے تحت کام کرنے والوں کوملیا میٹ کر دیں، اگر یہ عمارت گری تو ہم میں سے شاید ہی کوئی ملبے سے زندہ نکلے۔رضا ربانی نے کہا کہ ایک روز قبل چیئرمین نے رولنگ دی تو اس کا رد عمل آیا، وزیر اعظم کا نام لیا گیا لیکن نہیں سمجھتا کہ وزیراعظم ایسی گفتگو کر سکتے ہیں، کہا گیا کابینہ نے چیئرمین کی رولنگ کا برا منایا، آمریت کے دور میں بھی چیئرمین کی رولنگ کو ایسے نہیں لیا گیا، کہا گیا سینیٹ سمجھتی ہے کہ وزراء کے بغیر کام کرسکتے ہیں تو کابینہ بھی سوچے گی۔سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ یہ دھمکی دی گئی کہ
کابینہ سینیٹ کا بائیکاٹ کر دیگی ٗ کابینہ بضد ہوتی ہے کہ سینیٹ کا بائیکاٹ کرے گی؟ تو کابینہ آئین کی خود خلاف ورزی کرے گی؟ پریس کانفرنس میں کہا گیا یہ ایوان بل واسطہ منتخب ہے، یہ ایوان وفاق کی اکائیوں کا نمائندہ ہے جسے اسمبلیاں منتخب کرتی ہے، یہ کہا جائے کہ چیئرمین ان ڈائریکٹ منتخب ہوا، پھر میں چیلنج کروں گا کہ پھر صدر بھی ان ڈائریکٹ منتخب ہے۔پی پی رہنما نے کہا کہ آمر میں جرات نہیں ہوتی تھی کہ
اسپیکر پر انگلی اٹھائے، آج چیئرمین پر انگلی اٹھائی گئی، چلیں مانتا ہوں کہ مجھ سمیت سیاستدان کرپٹ ہوں گے، آپ معاشرے سے کرپشن ختم کرنے آئے ہیں، میں آپ کے ساتھ ہوں، لیکن کیا معاشرے میں صرف سیاستدان ہی کرپٹ ہے؟رضا ربانی نے کہاکہ میں نہیں کہوں گا کہ احتساب کا عمل صرف تین سیاسی جماعتوں کے خلاف ہو رہا ہے، کیا معاشرے میں سیاستدانوں کے علاوہ کوئی نہیں رہتا؟ میں نے کہا تھا بلا تفریق احتساب کریں،
آپ اس سے کیوں بھاگ گئے؟ اس ملک میں یک طرفہ احتساب نہیں چلے گا، صرف سیاستدان کرپٹ نہیں، معاشرے کا ہر شخص بد قسمتی سے کرپٹ ہے، عدلیہ سمیت سول، ملٹری بیوروکریسی سب جوابدہ ہونے چاہئیں لیکن اس کیلئے ہم تیار نہیں۔سابق چیئرمین سینیٹ نے وفاقی احتساب کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن میں تمام اسٹیک ہولڈر، سیاستدان، ججز، چاہے ملٹری کو شامل کیا جائے،
اگر میرا احتساب میرے ساتھی نہیں کرسکتے تو پھر کوئی اور محکمے والا بھی اپنے ساتھی کا احتساب نہیں کر سکتا۔انہوںنے کہاکہ نیب اس کمیشن کا ماتحت ہو، کمیشن فیصلہ کرے کہ آیا ریفرنس دائر ہو یا نہیں، سیاسی انتقام کو ختم کریں، کیوں ہمارے پر جلتے ہیں، اگر ہم ان کے بارے میں بات کریں گے تو لوگ واک آؤٹ کریں گے، اگر معاشرے سے کرپشن ختم کرنا چاہتے ہیں توسب کا احتساب کریں۔
اجلاس میں پی ٹی آئی کے رہنما علی محمد نے کہا کہ کابینہ اجلاس میں چیئرمین سینیٹ کے کنڈکٹ سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی ٗوزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وہ کابینہ میں کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے، اس ایوان پر کوئی آنچ ہے نہ آنے دیں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی صفوں میں کوئی انتشار نہیں ڈال سکتا تمام ادارے ایک پیچ پرہیں انہوںنے کہاکہ ایوان کی ایتھکس کمیٹی بنا دیں جس میں رضا ربانی، پرویز خٹک،
راجہ ظفر الحق جیسے سینئر لوگ ہوں، ہم اپوزیشن کو سنیں گے، اگر کوئی دراڑ ہے تو پاکستان کی جمہوریت کے دشمنوں میں دراڑ ہے۔وفاقی وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ اگر کوئی سوچتا ہے کہ ایوانوں کو کوئی تھریٹ کر سکتا ہے، وہ نہیں رہے گا، یہ ایوان ایسے ہی رہیں گے، پاکستان سیاسی جدوجہد، فکر اقبال اور علی گڑھ تحریک کے نتیجے میں بنا، طاقت کے بل بوتے پر نہیں بنا، پر امن سیاسی تحریک کے ذریعے بنا،
اقبالؒ، قائداعظم کی فکر ہمارے لئے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسونت سنگھ نے جناح کی بات لکھی کہ بستر مرگ پر بھی قائداعظم نے اپنے کھانے کے اخراجات خود ادا کرنے کا حکم دیا، میں رضا ربانی کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم ان سے سیکھیں گے، کوئی دراڑ نہیں ہے، نہ آنے دی جائیگی۔ شیری رحمن نے کہا کہ وفاقی وزیر علی محمد خان کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ کابینہ میں ایسی بات نہیں کی گئی،
یہ باتیںپریس کانفرنس میں کی گئی تھیں، اس ایوان اور اس کے کسٹوڈین کے بارے میں جو باتیں کی گئی ہیں، اس کا نوٹس لیا جائے، میڈیا میں یہ باتیں کی گئی ہین کہ آپ کی کوئی حیثیت نہیں، اس پر سینیٹ نے اپنا ایکشن لے لیا ہے، ایتھکس کمیٹی پارلیمان کا معاملہ ہے، ایگزیکٹو اور وزیراعظم کیا کر رہے ہیں، وہ بتایا جائے، ایس پی داوڑ کے حوالے سے رپورٹ دی جائے وہ رپورٹ ایوان میں آنی چاہیے تھی۔
مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ علی محمد خان کی تقریرکوخوش آمدید کہتے ہیں،انہوں نے کہا کہ وہ باتیں وزیراعظم نے نہیں کہیں،لیکن ایک وزیرنے بات کی۔انہوں نے کہا کہ حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ غلط بیانی کرنے پر وزیر کے خلاف ایکشن لیں،اگر گزشتہ روز کی بات وزیر اعظم نے نہیں کی تو انہیں مبارک باد ۔بعد ازاں سینٹ کااجلاس غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا ۔