لاہور(اے این این )امیر جماعۃالدعوۃ پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعیدنے کہا ہے کہ آسیہ مسیح کیس کی بنیاد پر تفتیش سے لیکر نظام شہادت تک سبھی قانونی سقم دور کئے جائیں۔گستاخیوں کے واقعات کی روک تھام کیلئے قانونی نظام کی اصلاح بہت ضروری ہے۔ حکومت سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کیخلاف فی الفور نظرثانی کی اپیل دائر کرے۔ توہین رسالت قانون پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے ۔
ایوب مسیح اور ریمنڈ ڈیوس جیسے لوگوں کو راتوں رات بیرون ملک نہ بھیجا جاتا تو پاکستانی عوام یوں عدم اعتماد کا شکار نہ ہوتی۔ بین الاقوامی سطح پر شان رسالت ﷺ میں گستاخیوں سے دیگر ملکوں میں اقلیتوں کو شہ ملتی ہے۔ حکمران بیرونی قرضوں کی پرواہ کئے بغیر تحفظ حرمت رسول ﷺ کا فریضہ سرانجام دیں‘ اللہ آسمانوں سے رحمتیں وبرکتیں نازل کرے گا۔ جامع مسجد القادسیہ میں خطبہ جمعہ کے دوران انہوں نے کہاکہ آسیہ مسیح کیس سے متعلق فیصلہ پر پورے ملک میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ علماء، دانشوروں، حکومت اور تمام طبقات کو معاشرے کی صحیح معنوں میں رہنمائی کرنی اور یکسوئی کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ اس وقت ہم غیر معمولی حالات سے گزر رہے ہیں۔ صلیبیوں و یہودیوں نے اسلام اور مسلمانوں پر جنگ مسلط کر رکھی ہے اور منظم منصوبہ بندی کے تحت شان رسالت ﷺ میں کی جانے والی گستاخیاں اس جنگ کا حصہ ہیں۔کبھی ناروے، ڈنمارک اور امریکہ میں قرآن پاک کی بے حرمتی اور نبی اکرم ﷺ کے (نعوذباللہ) توہین آمیز خاکے شائع کئے جاتے ہیں تو کبھی ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کروائے جاتے ہیں۔ ایسے واقعات سے ان کی ذہنیت اور اجتماعی سوچ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ صلیبی ملکوں کی شہ پر گستاخیاں کرنے والے سمجھتے ہیں کہ ان کیخلاف مقدمہ بنا تو کیس مغرب لڑے گااوربیرون ممالک انہیں پذیرائی ملے گی۔ آسیہ مسیح کی طرح پہلے بھی پاکستان میں ایسے کئی مقدمات قائم ہو ئے۔
جب تک مغرب میں گستاخیوں کا یہ سلسلہ نہیں تھا دوسرے ملکوں میں بھی اقلیتوں کی طرف سے ایسے واقعات کم ہوتے تھے۔ اسلام عدل و انصاف کا دین ہے اور کسی پر ظلم نہیں کرتا لیکن حکومت اور عدلیہ کو چاہیے کہ وہ ان حقائق کا بھی جائزہ لے۔ آسیہ مسیح کیس کے فیصلہ پر فرانس میں خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ایسے مقدمات بڑی تعداد میں چل رہے ہیں حقوق انسانی کے نام نہاد علمبردار ادار ان پربات کیوں نہیں کرتے؟۔حافظ محمد سعید نے کہاکہ آسیہ مسیح کیس میں تفتیش کا صحیح معنوں میں حق ادا نہیں کیا گیا۔
کیا اس بات کا جائزہ نہیں لیا جانا چاہیے تھا کہ کیس میں گواہ کیوں منحرف ہوئے؟دو عورتوں کے علاوہ باقی نے گواہی کیوں نہیں دی؟۔ یہ سب کچھ جاننا پولیس اور حکومت کی ذمہ داری تھی۔ پاکستان میں عدل و انصاف قائم کرنا ہے تو اس میں شہادت کا معاملہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ گواہی کے تقاضوں کو پورا کئے بغیر عدل و انصاف پر فیصلے نہیں کئے جاسکتے اور نہ ہی انصاف قائم ہو سکتا ہے۔حکمرانوں کو اگر احساس ہو جائے تو یہ مقدمہ ہی قانونی نظام کی اصلاح کا باعث بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہ معاملہ نبی اکرم ﷺ کی عزت و ناموس کا ہے۔اس کیس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا چاہیے۔گستاخیوں کے راستے بند کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس مسئلہ کو تشدد نہیں قانونی انداز میں اصلاح کر کے حل کرنا چاہیے۔ ہمیں دشمن کی سازشوں کو بخوبی سمجھتے ہوئے اسلام اور پاکستان کا دفاع کرنا ہے۔ ہم کسی کے طرفدار نہیں اللہ کے دین کے ساتھ ہیں۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والا ملک ہے۔نظریہ کی بنیاد پر بننے والے اس ملک میں یکجہتی کی فضا پیدا کرنا اور ایک ملت تشکیل دینا حکمرانوں پر فرض ہے۔جب روپیہ ڈالر کی غلامی سے آزاداور ملکی قوانین پر بغیر کسی ڈر اور خوف کے فیصلے ہوں گے تو اس ملک میں انتشار نہیں ہو گا۔ ہم نے ہر اعتبار سے اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کرناہے۔ انہوں نے کہاکہ بیرونی قوتوں نے پاکستان کو خاص طور پر سازشوں کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ کرپشن ملک کیلئے بہت نقصان ہے جس طرح مالی کرپشن کا خاتمہ کرنا بہت ضروری ہے اسی طرح پاکستان میں بیٹھ کر مغربی ملکوں اورانڈیا کے ایجنڈے پروان چڑھانے والوں کو بے نقاب کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔