اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) آج کل جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو اکثر ڈاکٹر جلد صحت یابی کے لیے اینٹی بایوٹیکس ادویات تجویز کرتے ہیں۔ اینٹی بایوٹیکس ادویات کا استعمال جسمانی دفاعی نظام پر ملے جلے اثرات مرتب کرتا ہے اور اکثر ان کے اثرات ہیضے اور قے وغیرہ کی شکل میں بھی سامنے آتے ہیں۔ مگر ان ادویات کے اثرات اس سے ہٹ کر بھی جسم پر مرتب ہوسکتے ہیں۔
کیونکہ مختلف افراد میں یہ سائیڈ ایفیکٹس مختلف ہوتے ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔ کیا اینٹی بایوٹیکس کا کورس مکمل کرنا ضروری ہے؟ فنگل انفیکشن اینٹی بایوٹیکس کے استعمال سے جسم میں بیکٹریا میں تبدیلی آتی ہے جس کے نتیجے میں لوگوں میں فنگل انفیکشن کا امکان بڑھتا ہے جو کہ منہ، جلد یا ناخنوں کے اندر ظاہر ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟ اگر تو آپ کو طویل مدت کے لیے ان ادویات کے استعمال کا مشورہ دیا گیا ہے تو ڈاکٹر سے مشورہ کرکے اینٹی فنگل ادویات کو بھی ان میں شامل کرلیں۔ دانتوں کی رنگت بدل جانا مختلف اینٹی بایوٹیک ادویات کے نتیجے میں 8 سال سے کم عمر بچوں کے دانتوں کی رنگت بدل سکتی ہے، جبکہ حاملہ خواتین ان ادویات کا استعمال کریں تو یہ امکان ہوتا ہے کہ ان کے ہونے والے بچے میں دانتوں کے مسائل ہوسکتے ہیں۔ بخار اگرچہ بخار تو متعدد وجوہات کی بناءپر ہوسکتا ہے تاہم اگر آپ نوٹس کریں کہ ان ادویات کے فوری استعمال کے بعد بخار چڑھا ہے تو یہ ممکنہ طور پر الرجی ری ایکشن ہوسکتا ہے۔ کسی بھی قسم کی اینٹی بایوٹیک دوا سے بخار ہوسکتا ہے جو کہ بہت جلد اتر بھی جاتا ہے، تاہم اگر اس کی شدت زیادہ ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرکے ادویات میں تبدیلی کے بارے میں مشورہ کرنا چاہئے۔ الرجی اینٹی بایوٹیک کے خطرناک ری ایکشن میں سے ایک الرجی ری ایکشن ہوتا ہے، اس صورت میں آنکھیں، ہونٹ، زبان اور گلا سوج سکتا ہے جبکہ خارش ہوسکتی ہے، ایسی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کریں اور مختلف گروپ والی ادویات کا استعمال کریں۔ اینٹی بایوٹیکس کا زیادہ استعمال کینسر کا خطرہ بڑھائے دل کے مسائل ایسا اکثر تو نہیں ہوتا مگر اینٹی بایوٹیکس سے دل کے مسائل کا خطرہ ضرور ہوتا ہے جو کہ عام طور پر دھڑکن میں بے ترتیبی یا لو بلڈ پریشر کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ سردرد اور سرچکرانا سردرد اور سر چکرانا اینٹی بایوٹیکس کے سب سے عام سائیڈ ایفیکٹس ہیں جو کہ ان ادویات کا استعمال ترک کرنے پر ختم ہوجاتے ہیں۔ ویسے اگر یہ درد زیادہ نہ ہو تو دردکش دوا استعمال کی جاسکتی ہے، اگر یہ درد ناقابل برداشت ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے۔