جمعہ‬‮ ، 27 دسمبر‬‮ 2024 

آسیہ بی بی کیس ، بلوچستان اسمبلی نے حکومت اور سپریم کورٹ سے حیران کن مطالبہ کر دیا

datetime 1  ‬‮نومبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کوئٹہ(آن لائن) بلوچستان اسمبلی نے آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ فیصلے کا ازسر نو جائزہ لے جید علماء کرام مشائخ پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے اور اس فیصلہ میں قوم کو اعتماد میں لیا جائے ، کے حوالے سے مشترکہ قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی جبکہ این ایف سی ایوارڈ میں کٹوتی سے متعلق تحریک التواء کو بھی متفقہ طور پر منظور کرلی گئی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا

اجلاس میں رکن بلوچستان اسمبلی اختر حسین لانگو نے کہا کہ کوئٹہ کے واحد اسپورٹس کمپلیکس ایوب اسٹیڈیم میں مختلف محکموں کی جانب سے غیر قانونی طور پر قبضہ کئے جارہے ہیں 2016 ء میں اے ٹی ایف نے قبضہ کرنے کی کوشش کی تو اس سلسلہ میں ہم نے عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ اسپورٹس کمپلیکس پر کسی بھی محکمہ کو بھی قبضہ کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ محکمہ اسپورٹس کے علاوہ کسی کو بھی زمین نہیں دی جائے حکومت محکمہ ریونیو کو پابند کرے کہ وہ اس متعلق رپورٹ فراہم کرے کہ کن کن محکموں کو یہاں اراضی دی گئی ہے ۔ رکن بلوچستان اسمبلی نصراللہ زیرے نے کہا کہ ایوب اسٹیڈیم کوئٹہ واحد اسپورٹس کمپلیکس جہاں ہمارے بچے کھیلتے ہیں مگر افسوس کہ دوسرے محکموں کو وہاں دفاتر الاٹ کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے بچوں کو کھیلنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے صوبائی وزیر مواصلاحات طارق مگسی نے اراکین اسمبلی کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان سے اس معاملہ پر بات کی جائے گی اور کسی بھی محکمہ کو اجازت نہیں دینگے کہ وہ اسپورٹس کمپلیکس میں اپنے دفاتر کھولے رکن صوبائی اسمبلی سید فضل آغا نے کہا ہے موجودہ حکومت معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی سوالات کے جوابات بھی نہیں دیاجارہے اگر ہم سوالات اور جوابات کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے مسئلہ آگے نہیں جائیگا ۔ جس پر صوبائی وزیر طارق مگسی نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں تمام محکموں سے درست جوابات آئیں گے

چیف آف سراوان رکن بلوچستان اسمبلی نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ ہم بلوچستان سے منتخب ہوکر آئے ہیں اور تمام منتخب نمائندوں کو اپنے لوگوں کے مسائل کا احساس ہے ، حکومتی وزراء کو پابند کیاجائے کہ وہ کورم کومدنظر رکھتے ہوئے اسمبلی اجلاس میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں انہوں نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ اسپیکر چیمبر میں اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے حوالے سے اجلاس طلب کرکے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں قائد ایوان ایگریکلچر مارکیٹ کمیٹی تشکیل دے ۔ ڈ پٹی اسپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل نے کہا کہ جب تک اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی نہیں ہوتی تب تک قائمہ کمیٹیاں نہیں بن سکتیں۔

بی این پی کی خاتون رکن اسمبلی شکیلہ نوید دہوار نے چیف آف سراوان سمیت نو منتخب اراکین اسمبلی کو کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے ایوان کی توجہ بلوچی اکیڈیمی کے گرانٹ میں کمی سے متعلق مبذول کراتے ہوئے کہاکہ 1958میں قائم ہونیوالے بلوچی اکیڈیمی کا سالانہ گرانٹ ایک کروڑ روپے ہیں جس سے اکیڈیمی شعراء ادیب و دانشوروں کو معاونت فراہم کرتی ہے اکیڈیمی میں طلباء و طالبات کو ریسرچ سمیت مختلف امتحانات میں تیاری سے متعلق کتب بھی فراہم کرتے ہیں اور پی سی ایس سمیت دیگر امتحانات میں اسی اکیڈیمی سے 70فیصد مواد دیا جاتا ہے تاہم افسوس کہ اپنے مقامی زبان اور ثقافت کو فروغ دینے کے لئے حکومت اقدامات اٹھانے

کی بجائے بلوچی اکیڈیمی کے گرانٹ میں کمی کرکے پنجگور میں واقعہ ایک نام نہاد اکیڈیمی کو نواز رہی ہے جس کا ایوان نوٹس لیں ۔ رکن بلوچستان اسمبلی نصرا للہ زیرے نے ایوان میں توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے کہاکہ 25 ستمبر کو سبزی منڈی ہزار گنجی میں سبزی فروشوں ، ماشہ خوروں ، زمینداروں اور کمیشن ایجنٹ کیلئے مختص گراؤنڈ میں قائم چھاپڑیوں کو بلڈوز کرکے آگ لگائی گئی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں غریب لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں اور محکمہ ذراعت اور مارکیٹ کمیٹی نے اس سلسلہ میں کیا اقدامات اٹھائے ہیں ۔ اورمحکمہ زراعت کی جانب سے درست جواب نہیں دیا گیا آکشن گراؤنڈ پر سب کا حق بنتا ہے مگر بدقسمتی سے غیر قانونی طور پر لیز دیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ آگے من پسند افراد کے حوالے کئے گئے ہیں ۔

زمیندار جب صبح مال لاتے ہیں تو ماشہ خور آگئے سپلائی کردیتے ہیں اگر ماشہ خوروں کو بے روزگار کیا جائے گا قوم پہلے ہی معاشی حالات سے دوچار ہے اور صوبے کی مالی حالت درست نہیں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے زراعت کو شعبہ بھی تباہی کی جانب چلی گئی ہے وزیراعلیٰ بلوچستان نے یقین دہانی کرائی تھی کہ مسئلہ کو حل کیاجائے گا ۔ صوبائی وزیر داخلہ میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ اس متعلق کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جلد ازالہ کیاجائے گا۔ رکن صوبائی اسملبی نواب اسلم رئیسانی نے کہاکہ اب تک کمیٹی نہیں بنائی گئی ہے کمیٹی کی بجائے کمشین قائم کرکے مسئلہ کو حل کیا جائے ، ثناء بلوچ نے کہا کہ ہزار گنجی میں مارکیٹ کمیٹی اپنا وجود رکھتی ہے ان معاملات کو دیکھا جائے اور مارکیٹ کمیٹی کے 250 ملازمین ہیں مگر اب تک اس سلسلہ میں اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں

کوئٹہ سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کو کمیٹی میں شامل کرکے مسئلہ حل کیا جائے ۔ وزیر داخلہ کی یقین دہانی پر توجہ دلاؤ نوٹس نمٹادی گئی ۔ اراکین اسمبلی ملک نصیر احمد شاہوانی اور ثناء بلوچ نے ایوان میں توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ مواصلات و تعیمرات میں 8 سال قبل 61 3ملازمین بھرتی ہوئے تھے اور اب 8 سال کے بعد ان ملازمین کو برطرف کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے تمام ملازمین کو برقرار رکھنے کی سفارش کی ہے صوبائی وزیر مواصلاحات و تعمیرات نے یقین دہانی کرائی کہ جب تک کمیٹی کی رپورٹ پیش نہیں ہوتی اس وقت تک کوئی ایکشن نہیں لیا جائے گا البتہ ان ملازمین کو برطرف کیا جائیگا جو غیر قانونی اور جعلی ڈگریوں کے ذریعے بھرتی ہوئے ہیں جس کے بعد توتجہ دلاؤ نوٹس کو نمٹا دیا گیا ۔

اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ شہر وہ گردونواح کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کی غرض سے 7 ارب روپے سے زائد لاگت کا ایک بڑا منصوبہ کوئٹہ واٹر سپلائی پراجیکٹ کے نام سے شروع کیا گیا جس میں شہر کے دیگر علاقوں کے علاوہ حلقہ نمبر 25 کی یونین کونسلز جن میں نواں کلی کوتوال ،کلی عمر شیخ ماندہ خیری ، سمنگلی اور ان سے ملحقہ علاقے شامل ہیں میں پانی کے پائب بھی بچھادیئے گئے لیکن تاحال ان یونین کونسلز اور ان سے محلقہ علاقوں کو پینے کا پانی فراہم نہیں کیا جارہا علاوہ ازیں یہ بھی طے پایا تھا کہ تکتو کے دامن میں مزید بور لگائے جائیں گے لیکن اب تک مذکورہ علاقہ میں حسب ضرورت بور نہیں لگائے گئے ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں افراد پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں

نیز عوام کی بنیادی ضروریات اور حقوق فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے اس طرح اربوں روپے کی رقم ضائع ہونے کا اندیشہ ہے لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتی ہے کہ وہ کوئٹہ شہر اور گردونواح اور حلقہ نمبر 25 کی یونین کونسلز جن میں نواں کلی کوتوال ، کلی عمر ، شیخ ماندہ ، خیزی، سمنگلی اور ان سے ملحقہ علاقے جہاں پانی کے پائب بچھائے گئے ہیں کو پانی کی فراہمی کیلئے جلد از جلد یقینی بنایا جائے نیز تکتو کے دامن میں حسب ضرورت مزید بور لگانے کو بھی یقینی بنایا جائے تاکہ کوئٹہ کے عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور احساس محرومی کا ازالہ ممکن ہوسکے ۔ اپنی قراردادکی موزونیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پانی کوئٹہ کا اہم مسئلہ ہے لہذا اس قرارداد کو منظور کیا جائے بی این پی کے اختر حسین لانگو نے کہا کہ چونکہ قرار داد میں کوئٹہ واٹر سپلائی پراجیکٹ کا نام شامل کیا گیا ہے

لہذا اس قرار داد میں پورے کوئٹہ کو شامل کیا جائے اس تمام نو حلقوں کو پانی کی فراہمی کو قرار داد میں شامل کیا جائے ۔ جمعیت علماء اسلام کے سید فضل آغا نے کہا کہ پانی کی قلت کا مسئلہ صرف کوئٹہ نہیں بلکہ پورے بلوچستان کا مئسلہ ہے لہذا اس قرار داد میں پورے بلوچستان کو شامل کیا جائے اور صوبائی حکومت اس حوالے سے ایک پالیسی مرتب کرکے مسئلہ کو حل کرے۔ صوبائی وزیر نوابزادہ طارق مگسی نے کہا کہ قرار داد میں جن علاقوں کا ذکر کیا گیا ہے اسی حوالے سے قرار داد منظور کی جائے اور اگر اراکین دیگر علاقوں کے نام شامل کرنا چاہتے ہیں تو وہ ایک الگ قرار داد لائیں ۔ چیف آف سراوان نواب محمد اسلم رئیسانی نے کہا کہ پانی کی قلت صرف کوئٹہ یا بلوچستان کا نہیں بلکہ پورے ملک کو مسئلہ بن چکا ہے انہوں نے تجویز دی کہ کوئٹہ کے مستقبل کی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے پانی کی فراہمی کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کی جائے ۔

پشتونخوامیپ کے نصراللہ زیرے نے کہا کہ کوئٹہ واٹر سپلائی پراجیکٹ کے تحت کوئٹہ میں پانی کی فراہمی کے لیے پہلے مرحلے میں ڈیمز بنانے تھے اور دوسرے مرحلے میں پائب لائن بچھاکر پانی فراہم کیا جانا تھا مگر پہلے مرحلے میں کوئٹہ کو کھنڈرات میں تبدیل کرکے پائپ لائن بچھائی گئی اور گزشتہ دور حکومت میں مانگی اور حلق ڈیم کے تعمیر کی منظور دی گئی جہاں سے اب پانی فراہم کی جائے گی انہوں نے کہا کہ کوئٹہ شہر میں سرکاری طور پر ٹیوب ویلز لگائے جانے پر پابندی لگائی گئی ہے دوسری جانب نجی طور پر ٹیوب ویلز لگانے کا سلسلہ جاری ہے اس کو روکا جائیاور واضح پالیسی اپنا کر پانی کی قلت دور کی جائے ۔ بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی۔ اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ چین پاکستان اکنامک کوری ڈور کی مد میں ملک بھر میں62 ارب ڈالر کے قریب سرمایہ کاری کی گئی

لیکن بلوچستان کو نظرانداز کیا گیا جس کی وجہ سے صوبے کے عوام میں احساس محرومی پائی جاتی ہے لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کے وہ سی پیک کی مد میں کی جانے والی غیر منصفانہ تقسیم کی بابت فوری طور پر ایک قومی کمیشن کی تشکیل کا اعدلان کرکے بلوچستان کو سی پیک منصوبہ کی تفصیلات اور رقبہ کی بنیاد پر اس کا حق ادا کرنے کو یقینی بنائے تاکہ صوبے کے عوام میں پائی جانیوالی احساس محرومی کا ازالہ ممکن ہو قرار داد کی موزنیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سی پیک میں اب تک 72 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوچکی ہے اس میں اینرجی ، انفراسٹکچر ریلوے،اور فائرآپٹک سمیت دیگر منصو بہ شامل تھے مگر منصوبہ کے تحت تمام14 انیرجی پراجیکٹ مشرقی روٹ پر لگائے گئے ہیں ان میں بلوچستان کو کوئی منصوبہ شامل نہیں اسی طرح انرجی کا بھی کوئی مسئلہ شامل نہیں ہے سی پیک کوئی چھوٹا منصوبہ نہیں

اس سے ہمارے صوبے کے مستقبل وابستہ ہے انہوں نے کہاکہ اس قرار داد میں بھر پور بحث کی ضرورت ہے تاہم آج کے اجلاس میں اراکین کی تعداد کم ہے لہذا میری استدعا ہے کہ یہ قرار داد آئندہ سیشن کیلئے ملتوی کی جائے تاکہ اس پر زیادہ اراکین کی موجودگی میں بھر پور بحث کی جاسکے ۔ ڈپٹی اسپیکر نے ایوان کی رائے سے قرار داد آئندہ سیشن کیلئے ملتوی کرنے کی رولنگ دی اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرے نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے مختلف قومی شاہراؤں کوئٹہ چمن ، کوئٹہ سبی ، کوئٹہ کراچی، کوئٹہ ژوب ، کوئٹہ ڈی جی خان سمیت دیگر قومی شاہراؤں پر آئے روز تیز رفتاری کے باعث حادثات رونما ہوتے ہیں اور اب تک کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں لہذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ صوبے کے تمام قومی شاہراؤں کو موٹر وے پولیس کے حوالے کرنے کو یقینی بنائے تاکہ تیز رفتاری کی روک تھام اور حادثات میں کمی ممکن ہوسکے ۔

قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبے کی مختلف قومی شاہراؤں پر آئے روز ٹریفک حادثات میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیائع ہورہا ہے دوسرے صوبوں کی طرح ہمارے صوبے میں موٹر وے پولیس پوری شاہراؤں پر نہیں بلکہ محدود علاقوں تک ہے اس کے دائرہ کار کو بڑھائے جائے دوسری جانب گاڑیوں کی چیکنگ نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے حادثات رونما ہورہے ہیں ایک جانب ہمارے لوگ دہشتگردی کا شکار ہیں تو دوسری طرف ٹریفک حادثات میں قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں ۔ جمعیت علماء اسلام کے سید فضل آغا نے کہا کہ قومی شاہراؤں پر حادثات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے صوبے میں قومی شاہرائیں دراصل شاہراہ کی تعریف پر پوری نہیں اترتی ہیں ایک جانب سڑکوں کی تعمیر میں ٹیکنیکل غلطیاں ہیں تو دوسری جانب ان کی حالت بھی بہتر نہیں ہے قومی شاہراؤں کا 62 فیصد ہمارے صوبے میں ہے مگر ان کیلئے صرف 12 فیصد فنڈز دیئے جاتے ہیں اتنے قلیل فنڈز میں ان سڑکوں کی مرمت اور بہتری ممکن نہیں ہے

انہوں نے ذور دیا کہ موٹر وے کے انجینئرز کو یہاں بلایا جائے تاکہ وہ قومی شاہراؤں کا معائنہ کرکے ان کی حالت بہتر بنائے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے اکبر مینگل نے کہا کہ ایک جانب ہمارے لوگ لاپتہ ہیں دوسری جانب دہشتگردی کے واقعات ہیں اور ان سے زیادہ لوگ ٹریفک حادثٖات میں جاں بحق ہورہے ہیں اس جانب خصوصی توجہ دی جائے ۔ بی این پی کے رکن اختر حسین لانگو نے کہا کہ اب تک ایسا کوئی ادارہ نہیں بنا جو ڈرائیورنگ کے بارے میں لوگوں کوآگاہی دے قومی شاہراؤں پر ایسے لوگ گاڑیاں چلاتے ہیں جن کا کبھی بھی ڈرئیونگ ٹیسٹ نہیں لیا گیا ہے اصولوں پر کوئی پابندی نہیں کی جارہی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ کوئٹہ چمن ، کوئٹہ کراچی، شاہراؤں کو موٹر وے پولیس کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ حادثات کی روک تھام میں کمی کرسکیں تحریک انصاف کے رکن اسمبلی مبین خان خلجی نے کہا کہ صوبے کے تمام قومی شاہراؤں پر بڑے حادثات رونما ہوتے ہیں

اور ان حادثات کی روک تھام اور کمپنیوں کی جانب سے چلائے جانے والی بسوں کیلئے کوئی قانون بنایا جائے اور اگر خدانخواستہ ان حادثات میں بے گناہ لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ان کا معاوضہ ان کمپینوں سے لیا جائے جس کا بس حادثہ کا شکار ہو حکومت اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے کر معاملات کو دیکھاجائے جمعیت علماء اسلام کے رکن صوبائی اسمبلی ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس وقت ملک میں جو ہنگائی صورتحال بنی ہوئی ہے اس صورتحال کو سنجیدگی سے لیا جائے مسئلہ سپریم کورٹ کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ اسلامی اقدار اور روایات کا ہے جس نظریہ سے پاکستان بنا ہے اس نظریہ کے تحت ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ توہین رسالت پر ہم کسی بھی صورت سودا بازی نہیں کرینگے اور حضور پاک ﷺ پر مسلمان سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں دھمکیوں سے ہمیں نہ ڈرایا جائے اگر ہم اس احساس مسئلہ پر مسئلہ پر احتجاج نہ کریں تو پھر افسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ کسی بھی فرقہ یا طبقہ کی دال آزاری نہیں چاہتے

اس وقت بیرونی آقاؤں کی وجہ سے موجودہ صورتحال میں احتجاج پر قابو پانے کیلئے دھمکیاں دی جارہی ہیں اسلامی اقدار پر کوئی سودا بازی نہیں کرینگے چاہیے جتنی پابندیاں عائد کی جائیں ہم اس ذہنیت کے خلاف ہیں جو ملک میں حالات کو خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں بلوچستان اسمبلی سے ایک پیغام دیاجائے کہ ہم کسی بھی صورت اسلامی اقدار اور روایات کے دشمن کو معاف نہیں کرینگے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے عدالت کا فیصلہ اپنی جگہ پر مگر جو سازشیں ملک سے باہر بنی ہوئی ہے اور سوشل میڈیا پر وزیراعظم کے ساتھ ان لوگوں کی ملاقات کی تصویریں بھی وائرل ہوئی ہیں جو ان توہین رسالت میں ملوث ہیں ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جہاں پر لوگ قرآن وسنت پر زندگی گزارہیں ان کو یہ حق دیاجائے مگر بدقسمتی سے یہاں پر اسلامی اقدار پر حملے ہورہے ہیں رکن صوبائی اسمبلی اصغر علی ترین نے کہا کہ ہم عدالت کا احترام کرتے ہیں مگر اس وقت آسیہ بی بی کی رہائی کے حوالے سے ملک بھر میں بیس کروڑ عوام سراپا احتجاج ہیں

سپریم کورٹ کو اس فیصلہ پر نظر ثانی کرنی چاہیے بی این پی کے رکن اسمبلی ثناء بلوچ نے کہا کہ حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا اور نبیﷺ نے دنیا میں امن کا درس دیا ہے انصاف کے تقاضوں کو پوار کیا جائے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو مکمل فیصلہ تسلیم نہیں کرتے سپریم کورٹ دوبارہ کیس کا ازسر نو جائزہ لے جہید علماء کرام مشائخ پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے اور اس فیصلہ میں قوم کو اعتماد میں لیا جائے اور لوگوں کے جذبات کو کم کرنے کا یہی طریقہ ہے رکن صوبائی اسمبلی سید فضل آغا نے کہا کہ اسلامی تعلیمات پر عملدرآمد کیا جائے اور تمام مذاہب کا احترام کرنے کیلئے اصولوں پر پابندی کرنی چائے بعدازاں ایوان میں جمعیت علماء اسلام ملک سکندر ایڈووکیٹ نے مشترکہ قرار دادپیش کی اور قرار داد کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا ۔ اجلاس میں پشتونخوامیپ کے رکن نصراللہ خان زیرے نے گزشتہ اجلاس میں اپنی باضابطہ شدہ تحریک التواء کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 18 اکتوبر کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں

این ایف سی کے تحت صوبوں کے فنڈز پر کٹ لگانے کی بات کی گئی اس بات کا اظہار ہم پہلے بھی کرتے آئے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کو اقتدار میں اس لیے لایا گیا کہ وہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم اور اٹھارویں ترمیم کو واپس لیں گے جو اٹھارہ اکتوبرکے اجلاس میں ثابت ہوگی انہوں نے کہا کہ آئین میں صوبوں کا حصہ طے ہے اگر صوبوں کیخلاف اقدام کیا گیا تو اس کی مخالفت کرینگے انہوں نے کہا کہ وفاق کی جانب سے صوبوں کے فنڈز کی کٹوتی پر سوائے سندھ کے علاوہ دیگر صوبوں کی جانب سے مخالفت بہت مشکل ہے ایک جانب ہم اس بات سے پریشان ہیں کہ ہمارے عوام بینادی سہولیات سے محروم ہیں ہمارے پاس فنڈز کی کمی ہے دوسری جانب فنڈز میں کٹوتی کی باتیں ہورہی ہیں انہوں نے کہا کہ ہم 18 ویں ترمیم سے بھی آگئے جانا چاہتے ہیں مگر صورتحال یہ کہ وفاق اس سے پیچھے جانا چاہتا ہے جو ممکن نہیں اگر ایسا ہوا تو سخت مخالفت کرینگے انہوں نے کہا کہ 7 ویں این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کو کم حصہ ملا انہوں نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق

این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کو غربت کی بنیاد پر زیادہ فنڈز دیئے جائیں ہمارا رقبہ اور پسماندگی کو بھی شامل کیا جائے اگر ایسا نہیں ہوا اور صوبہ کے فنڈز پر کٹ لگایا گیا تو پھر ترقیاتی منصوبہ تو دور کی بات ہے پھر شائد صوبائی حکومت کے پاس ملازمین کی تنخواہوں کیلئے بھی فنڈز نہ ہونگے ۔ سابق وزیراعلیٰ چیف آف سراوان نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ گزشتہ8 سال سے نیا این ایف سی نہیں آرہا ہم کسی کو اس کا ذمہ دار قرار نہیں دیتے لیکن کہنا ہوگا کہ این ایف سی ایوارڈ کیوں نہیں آرہا آیا معاملہ این ایف سی ایوارڈ کا کہا یا اس سے بڑھ کر اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کا ہے صدارتی نظام ملک میں لانے کی بات ہورہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سابق دور حکومت میں وفاقی وزارت داخلہ سے لائسنس منسوخ کرنے کے حوالے سے ایک لیٹر سوشل میڈیا میں آیا اتنا حساس لیٹر کیسے باہر نکلا اگر یہ ہوا تو پھر 18 ویں ترمیم کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی انہوں نے کہا کہ جب میں وزیراعلیٰ تھا تو جاتے ہوئے صوبے میں 27 ارب روپے سرپلس چھوڑ کر گیا تھا

آج 63 ارب روپے کے خسارہ کی باتیں ہورہی ہیں یہ بھی دیکھا جائے کہ یہ پیسے کہاں سے گئے انہوں نے ذور دیا کہ ایوان کی کارروائی کو موثر انداز میں اگئے بڑھانے کیلئے جلد اسٹینڈنگ کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ بلوچستان نینشل پارٹی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ اس حوالے سے گزشتہ ماہ ہماری ایک قرر داد منظور ہوچکی ہے ہم نے اس وقت ہی صوبائی حکومت کو آگاہ کیا تھاوفاقی حکومت کی جانب سے صوبے کے وسائل پر کٹ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے ہم نے حکومت کو اس وقت اس صورتحال اور مشکلات سے بچھانے کیلئے ہم نے قرار داد منظور کی اور حکومت کو یہ راستہ دیا کہ وہ ہماری قرار داد کو ساتھ لیکر وفاقی حکومت کے سامنے زیادہ بہتر انداز میں صوبے کے موقف کو پیش کریں انہوں نے کہا کہ نئے این ایف سی ایوارڈ کا تقسیم کو پوار طریقہ کار موجود ہے اور آئین کے آرٹیکل 163 واضح کرتا ہے کہ ہر نئے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ پرانے ایوارڈ سے کم نہیں ہوگا نئے این ایف سی میں نئے کمیشن کے تحت نئے طریقہ کار طے ہونا ہے

بلوچستان ملک کا 43 فیصد رقبہ پر مشتمل ہے اور اگر ہمارے سمندر کو شامل کرلیا جائے تو یہ ملک کے نصف رقبہ سے زیادہ ہوجاتا ہے ۔ رکن صوبائی اسمبلی شکیلہ نوید دہوارنے کہا ہے تمام وسائل سے مالا مال بلوچستان کے باوجود ہمارے ادارہ مفلوج ہیں اس وقت پانچ ہزار اسکول بغیر چت کے اٹھارہ لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں8 سے 10 گھنٹے لوڈشیڈنگ کوئٹہ میں کی جارہی ہے این ایف سی ایوارڈ پر سنجیدگی سے کا م لیا جائے گوادر میں موزیکل پروگرام سے ہمارے مسائل حل نہیں ہونگے صوبائی وزیر داخلہ میر سلیم کھوسہ نے کہا کہ اپوزیشن کو یقین دہانی کراتے ہیں کہ اس مسئلہ کوسنجیدگی سے لیں گے اور این ایف سی ایورڈ میں کٹوتی کو کسی صورت برداشت نہیں کرینگے اور حکومت بھی تحریک کی حمایت کرتی ہے بعدازاں تحریک التواء کو متففقہ طور پر ایوان نے منظور کرلیا ۔ بعدازں ثناء بلوچ نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کو ڈیجیٹل کیا جائے تاکہ تمام چیزوں کو جدید تقاضوں سے دیکھا جائے سسٹم اپ گریڈ نہ ہونے سے مسائل پیدا ہورہے ہیں اسپیکر نے یقین دہانی کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کے اپ گریڈیشن کے حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان سے بات کرینگے اور مسائل کو جلد حل کیا جائے گا ۔

موضوعات:



کالم



کرسمس


رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…