لاہور (آن لائن) سپریم کورٹ لاہور رجسٹری نے زیر زمین پانی نکال کر منرل واٹر فروخت کرنے والی کمپنیوں سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی ہوئی چیف جسٹس پاکستان نے نیسلے کا 15 روز میں فرانز ک آڈٹ کروانے کا حکم دے دیا ،عدالت نے پاکستان کی بڑی منرل واٹر کمپنیوں کے پانی کے نمونے چیک کروانے کا حکم دے دیا،
فرانزک آڈٹ کے بعد اس معاملے کو دیکھا جائے گا کہ کمپنیوں کو حکومت کو پانی کی کتنی ادائیگی کرنی چاہئے،20 سال سے کمپنیاں صرف منافع ہی کما رہی ہیں،اب وقت آگیا ہے کہ جو قوم نے ہمیں دیا اسے لوٹانا ہے ،لوگوں میں احساس پیدا ہو گیا ہے کہ اب ہمیں پوچھا جا سکتا ہے ،اس کیس کے بعد کمپنیاں مناسب قیمت ادا کریں گی اور ریٹ بھی مناسب رکھیں گی،کمپنیوں کی جانب سے آڈٹ کیلئے ایک ماہ کی مہلت دینے کی استدعا مسترد کر دی چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پانی ایک ایسا ایشو ہے جسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اب بڑی بڑی سوسائٹیوں کا نمبر آنا ہے جو ٹیوب ویل لگا کر رہائشیوں سے پوری قیمت وصول کرتی ہیں،بڑی سوسائٹیاں قیمت پوری وصول کرتی ہیں مگر حکومت کو ایک پیسہ نہیں دیتیں،آئندہ ہفتے سوسائٹیوں میں پانی کی فراہمی کے حوالے سے متعلق بھی کیس کی سماعت شروع کریں گے ،کمپنیوں نے اربوں روپے کا منافع کمایا لیکن حکومت کو انتہائی معمولی رقم ادا کی، پانی انتہائی قیمتی ہے دوسری انڈسٹریوں کے پانی استعمال کرنے پر بھی ریٹس مقرر کیے جا رہے ہیں،پانی فروخت کرنے والی کمپنیاں قیمتی پانی فروخت کر رہی ہیں،کمپنیاں پانی لینے کے عوض جو رقم ادا کررہی ہیں، وہ دنیا میں سب سے کم ریٹ ہے،ایک لٹر پانی پچاس روپے کا بیچا جارہا ہے اور خزانے میں ایک پیسے کا آٹھواں حصہ دیا جا رہا ہے،نیسلے نے ایک سال میں پانی فروخت کرکے 6 ارب روپے منافع کمایا،:نیسلے نے پانی کے عوض ملکی خزانے میں انتہائی معمولی رقم جمع کروائی،
غیر ملکی کمپنیاں سرمایہ کاری ضرور کریں لیکن ملکی قوانین کی پابندی ان کو بھی کرنی ہے، جو سہولیات ملٹی نیشنل کمپنیز کو ملیں گی وہی سہولیات مقامی سرمایہ کاروں کو بھی ملیں گی،دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کاری ہے، جو غیر ملکی کمپنیوں کو ریلیف ملے گا وہی مقامی کو دیا جائے گا،قدرتی پانی کے استعمال پر ہر کمپنی کو ٹیکس دینا پڑے گا، اگر یہی صورتحال رہی تو ہمارے بچوں کو پانی نہیں ملے گا، اگر پانی کی صورتحال یہی رہی تو ہمارے بچوں کو پانی نہیں ملے گا۔