واشنگٹن(آئی این پی)امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رواں برس افغانستان میں شام سے بدتر خوں ریزی کا خدشہ ہے، افغانستان میں سیکیورٹی فورسز کی مسلسل پسپائی، طالبان کے بڑھتے حملے اور غزنی پر قبضہ کے بعد افغانستان کے حالت شام سے بدتر ہو سکتے ہیں،بڑھتے پر تشدد واقعات بد ترین خانہ جنگی کے غماز ہیں، ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق
امریکی تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ خود کش دھماکوں، طالبان جنگجووں کے سیکیورٹی فورسز کے چیک پوسٹوں پر مسلسل حملوں اور غزنی پر شدت پسندوں کے قبضے کے بعد افغانستان کے حالات شام سے زیادہ ہولناک ثابت ہو سکتے ہیں۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی انسٹی ٹیوٹ برائے امن نے اپنی رپورٹ میں خبر دار کیا ہے کہ رواں سال افغانستان میں حالات شام سے زیادہ بد تر ہو سکتے ہیں۔ افغان جنگ کے 17 برسوں میں رواں سال ہونے والے پر تشدد واقعات بدترین خانہ جنگی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی بھی اپنے پیشروں کی پالیسیوں سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئی ہے جو تاحال کسی بڑی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکی ہے البتہ افغان میں طالبان مضبوط اور اتحادی کمزور ہوتے نظر آ رہے ہیں۔علاوہ ازیں انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے بھی اپنی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ رواں برس افغانستان میں ہونے والی جھڑپوں میں ہلاکتیں 20 ہزار سے تجاوز کر جائیں گی جس کی بنیادی وجہ کئی صوبوں میں ہونے والی قبضے کی جنگ ہے جب کہ خود کش دھماکوں اور دہشت گردی کے دیگر واقعات میں ہونے والی ہلاکتیں علیحدہ ہیں ۔واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان جنگجووں نے خوں ریز جھڑپ کے بعد غزنی کے بیشتر حصوں میں قبضہ حاصل کرلیا۔ اسی طرح دیگر صوبوں میں بھی شدت پسندوں کی پیش قدمی جارہی ہے اور کئی مقامات پر اتحادی افواج کو پسپائی کا سامنا رہا ہے۔