تحقیق کے بانی نارتھ ویسٹ یونیورسٹی فین برگ اسکول آف میڈیسن کے پروفیسر بوگڈین پیٹرکا کہنا ہے کہ سگریٹ نوشی کرنے والے افراد سگریٹ نوشی نہ کرنے والے افراد کے مقابلے میں تین گنا زیادہ کمر کی شدید تکلیف میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ سگریٹ انسانی دماغ کو متاثر کرتی ہے جس کے باعث دماغ کمر میں ہونے والی تبدیلیوں پر ردعمل کم کر دیتا ہے جو درد کی شدت میں اضافے کی وجہ بنتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نتائج کمر کی تکلیف میں مبتلا سیکڑوں مریضوں کے مطالعے کے بعد حاصل کئے گئے ہیں، ایسے مریضوں کے پانچ مختلف اوقات میں ایم آر آئی کیا گیا اور ان سے کمر کی تکلیف شدت سے متعلق پوچھا گیا۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ دماغ کے دو حصے نیوکلیس کو کمزور کرنے والے اور کارٹیکس کے سرکٹ جو کسی نشے کےعادی فرد کے رویے کو ظاہر کرتے ہیں سگریٹ نوشوں میں بہت زیادہ مضبوط ہوتے ہیں اورتیزی سے اپناکام کرتے ہیں۔ سگریٹ نوشی دماغی خلیوں کے کام کو متاثر کرکے تکلیف کا راستہ بناتی ہے جب کہ اس سے آکسیجن کا ٹشوز تک پہنچنے کا راستہ بھی متاثر ہوتا ہے جس سے جوڑوں اور ہڈیوں کا درد پیدا ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سرکٹ ان لوگوں میں اپنی سرگرمی کم کردیتا ہے جو اپنی مرضی اور خواہش سے سگریٹ نوشی ترک کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی کمر تکلیف کی شدت میں تیزی سے کمی آجاتی ہے۔ ریسرچرز کا کہنا ہے کہ اس سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ صرف سگریٹ نوشی ہی نہیں بلکہ کسی بھی درد اور نشے کے عادی ہونے کے درمیان گہرا تعلق ہے، ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ادویات درد کو کسی حد تک کم تو کردیتی ہے تاہم دماغ میں موجود اس سرکٹ کی تیزی پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔
واضح رہے کہ 2012 میں امریکا میں ہونے والی تحقیق نے بھی ثابت کیا تھا کہ سگریٹ نوش سگریٹ نہ پینے والوں کے مقابلے میں کمر کی بیماریوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔