صدر ایوب خان جب صرف کمانڈران چیف تھے تو وہ چین سموکر ہوتے تھے‘ صبح اٹھتے وقت انہیں سگریٹ چاہیے ہوتا تھا‘وہ دن میں دو پیکٹ پیتے تھے‘ ایک صبح ان کا اردلی سگریٹ نہ لا سکا ‘ایوب خان نے اسے گدھا کہہ دیا‘ اردلی بنگالی تھا اور عزت نفس کا مالک تھا، اس نے ایوب خان کو پلٹ کر جواب دیا‘ صاحب آپ اگر اپنی زبان کنٹرول نہیں کر سکتے تو اتنی بڑی آرمی کیسے کنٹرول کریں گے‘ یہ بات سیدھی ایوب خان کے دل میں لگی‘
انہوں نے اس کے بعد پوری زندگی سگریٹ پیا اور نہ کسی کو برا بھلا کہا‘ وہ یحییٰ خان‘ شیخ مجیب الرحمن اور بھٹو جیسے مخالفین کا ذکر بھی آپ‘ جناب اور صاحب کے ساتھ کرتے تھے۔ گورننس اور مینجمنٹ دونوں کا تعلق زبان کے ساتھ ہوتا ہے‘ آپ دوسروں کے ساتھ کس طرح بی ہیو اور کس طرح کمیونی کیٹ کرتے ہیں گورننس کا تعلق اس کے ساتھ ہوتا ہے‘ آپ اگر بی ہیوئیر یا کمیونی کیشن میں مار کھا جاتے ہیں تو آپ مکمل طور پر ناکام ہو جاتے ہیں خواہ آپ کتنے ہی سقراط یا کتنے ہی خلیفہ ہارون الرشید کیوں نہ ہوں اور ہماری نئی حکومت کو بار بار یہ چیلنج فیس کرنا پڑ رہا ہے‘ کل لاہور میں وزیر ریلوے شیخ رشید کو ریلوے کے چیف کمرشل منیجر کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا‘ شیخ رشید نے سی پیک کے کوآرڈی نیٹر اشفاق خٹک کو کہا‘ آپ مجھے رضیہ بٹ کے ناول نہ سنائیں‘ اشفاق خٹک وائس چانسلر رہے ہیں‘ یہ ہارورڈ یونیورسٹی کے ڈگری ہولڈر ہیں‘ چیف کمرشل منیجر حنیف گل نے شیخ رشید کو ٹوکا ‘ سر آپ کو سینئر لوگوں کے ساتھ عزت سے بات کرنی چاہیے‘ شیخ رشید نے انہیں شٹ اپ کہہ دیا‘ جواب میں حنیف گل نے وزیر کو شٹ اپ کہہ دیا اور دو سال کی چھٹی اپلائی کر دی‘ حنیف گل بھی ایم آئی ٹی اور برمنگھم یونیورسٹی کا انتہائی پڑھا لکھا 20ویں گریڈ کا افسر ہے‘ یہ بیس سال سے ریلوے میں ہے اور اس نے سی پیک کیلئے بھی ریلوے کا پراجیکٹ بنایا تھا‘ یہ ریلوے میں ہو رہا ہے‘ آج وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم پر پاکپتن کے ڈی پی او رضوان گوندل کا تبادلہ کر دیا گیا‘
ان کا جرم یہ تھا پولیس نے پیر غنی روڈ کے ناکے پر خاتون اول کے سابق خاوند خاور مانیکا کی گاڑی روکنے کی غلطی کر دی تھی‘ رضوان گوندل کو مانیکا صاحب کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگنے کا حکم دیا گیا‘ انہوں نے انکار کر دیا تو ان کا تبادلہ کر دیا گیا‘ یہ دو واقعات حکومت کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں‘ کیا یہ لوگ اس طریقے سے سسٹم چلا سکیں گے‘ میرا خیال ہے نہیں‘ وزیراعظم عمران خان کو اپنے لوگوں کو روکنا ہوگا ورنہ حکومت 22 سال کی عزت 22 دنوں میں ضائع کر بیٹھے گی‘ ایسا کیوں ہو رہا ہے‘ یہ ہمارا آج کاایشو ہوگا جبکہ اپوزیشن نے خود کو متحدہ ثابت کرنے کا تیسرا موقع بھی ضائع کر دیا‘ یہ متفقہ صدارتی امیدوار پر متفق نہ ہو سکی‘ پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن جبکہ باقی آدھی اپوزیشن نے مولانا فضل الرحمن کو صدارتی امیدوار بنا دیا‘ متحدہ اپوزیشن متحد کیوں نہیں ہو رہی؟ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔