اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) کچھ صورتوں میں 4 اور کچھ میں 7 دن بعد ہلکے زکام سے مرض کا آغاز ہوتا ہے جس کے بعد ایک دم سے تیز بخار چڑھ جاتا ہے اور ساتھ ہی آنکھوں، جوڑوں، پٹھوں اور ہڈیوں میں شدید درد ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سر درد، ہاتھوں اور جسم کے دیگر حصوں میں شدید خارش کے ساتھ سرخ رنگ کے دھببے پڑنے لگتے ہیں۔ ان ابتدائی علامات کے بعد اگر مریض کو بروقت طبی امداد دے دی جائے۔
تو مسئلہ زیادہ پیچیدہ نہیں ہوتا اور مریض کو علیحدہ وارڈ میں رکھ کر مرض کو پھیلنے سے روک لیا جاتا ہے لیکن اگر کسی وجہ سے مرض کی بروقت تشخیص نہ ہوسکے یا مناسب طریقے سے علاج نہ ہو تو مریض کی حالت بگڑنے لگتی ہے اور بخار شدید ہوجاتا ہے جسے ‘ڈینگی ہومو ریجک فیور’ کہا جاتا ہے۔ اس میں شدید تیز بخار کے ساتھ متلی، پیٹ میں درد اور ڈائیریا کے بعد مثانے سے خون آنے لگتا ہے۔ مریض کے جسم میں دوران خون بگڑ جانے سے جسم کو جھٹکے لگتے ہیں اور دل کے دورے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے، جسے ڈینگی شاک سائنڈرم کہا جاتا ہے۔ اس حد تک حالت خراب ہوجانے کے بعد مزید علاج ممکن نہیں رہتا اور چند ہی روز میں متاثرہ شخص کی موت واقع ہوجاتی ہے تاہم اکثر کیسز میں مریض کی حالت کا انحصار وائرس کی اقسام پر بھی ہوتا ہے۔ جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ڈینگی وائرس تباہی پھیلاتا رہا ہے اور ہر برس کی طرح 2018ء میں بھی مون سون کا سیزن شروع ہوتے ہی سندھ اور پنجاب سے ڈینگی کے کیسز سامنے آنا شروع ہوگئے۔ اگرچہ اس برس مون سون کی بارشیں معمول سے بہت کم برسی ہیں اور ابھی تک لاہور کے علاوہ کہیں بھی سیلابی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا، تاہم محکمہ موسمیات کی رپورٹس میں بارشوں کا امکان ظاہر کیا جاتا رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 2016ء میں 16 ہزار 580 افراد ڈینگی کا شکار ہوئے، جن میں سے 257 کی صرف لاہور میں موت واقع ہوئی۔ پچھلے برس 2017ء میں یہ اعداد و شمار اچانک ہولناک شکل اختیار کرگئے اور پورے ملک سے 78 ہزار 820 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے صرف 17 ہزار 828 افراد کی لیبارٹری سے تصدیق ہوسکی، مگر قابلِ غور بات یہ ہے کہ گزشتہ برس زیادہ تر کیسز پنجاب کے بجائے خیبر پختونخوا سے سامنے آئے جن کی تعداد 68 ہزار 142 تھی۔
گزشتہ برس ڈینگی سے متاثرہ 54 افراد کی موت ہوئی جن میں سے 50 خیبر پختونخوا اور 4 پنجاب میں چل بسے۔ اس ہولناک صورتحال کو قابو کرنے کے لیے خیبر پختونخوا کی حکومت نے گنجان آبادی والے علاقوں میں 1 لاکھ 90 ہزار گھروں میں جراثیم کش اسپرے کیا تاکہ ڈینگی مچھر کی افزائش نسل کو روکا جاسکے۔ ’پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں شامل ہے 2018ء میں ایک دفعہ پھر
ڈینگی کے حملے کی جگہ تبدیل ہوگئی ہے اور اب تک زیادہ تر کیسز سندھ سے رپورٹ ہوئے ہیں۔ ڈینگی کنٹرول و حفاظتی پروگرام برائے حکومتِ سندھ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک 538 کیسز دارالحکومت کراچی میں اور 34 دیگر علاقوں سے سامنے آئے ہیں جن میں سے صرف ایک شخص کی موت واقع ہوئی ہے جبکہ پنجاب میں مون سون کی بارشوں کے آغاز کے
بعد 86 ڈینگی کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ اگرچہ ڈینگی کے علاج کے لیے کوئی باقاعدہ ویکسین ابھی تک نہیں بنائی جاسکی اور دنیا بھر میں اس کے علاج کے لیے روایتی طریقے و ادویات ہی استعمال کی جارہی ہیں مگر یہ امر قابل ذکر ہے کہ ڈینگی، چکن گونیا، زیکا وائرس یا دیگر وبائی امراض ہوں، علاج سے زیادہ حشرات و مچھروں کی افزائش روکنے اور صفائی ستھرائی کے ساتھ نکاسی آب کے نظام کو بہتر کرنے
پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خشک سالی سے بھی وبائی امراض پھوٹتے ہیں خشک سالی کا طویل دورانیہ ہو یا موسلا دھار و طوفانی بارشوں کا موسم، بروقت اور درست حکمت عملی کے ذریعے ان المیوں کو روکا جاسکتا ہے جو ان وبائی امراض کی بدولت پاکستان سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں ایک طویل عرصے سے رونما ہوتے رہے ہیں اور اب 21ویں صدی میں گلوبل وارمنگ اور بدلتے ہوئے
موسمی مزاج کی بدولت ان میں شدت آچکی ہے۔ حال ہی میں کریبیئن انسٹی ٹیوٹ فار میٹرولوجی اینڈ ہائیدرولوجی نے ڈینگی اور دیگر وبائی امراض کی قبل از وقت پیش گوئی کرنے کے لیے ایک شماریاتی ماڈل بنایا ہے جس کی بنیاد پچھلے چند برسوں میں کسی مخصوص علاقے کے درجہ حرارت میں اضافے اور وہاں بارشوں کی سالانہ اوسط پر رکھی گئی ہے۔ مثال کے طور پر اس ماڈل پر کام کرنے
والے محققین نے برازیل اور اطراف کے ممالک کے لیے 1999ء سے 2016ء تک درجہ حرارت اور بارشوں کی اوسط کا ایک شماریاتی ڈیٹا تیار کرکے یہ پیش گوئی کی ہے کہ اگلے 3 ماہ میں کن کن علاقوں میں ڈینگی کی وبا پھوٹ پڑنے کا امکان ہے اور حیرت انگیز طور پر یہ پیش گوئی بلکل درست ثابت ہوئی۔ لہٰذا یہ ماڈل ان علاقوں کے لیے زیادہ کار آمد ثابت ہوسکتا ہے جہاں مختصر یا طویل المدت خشک سالی
کے بعد بارشوں کا آغاز ہوا ہو جو عموماً کئی ماہ لگاتار جاری رہتی ہیں اور سیلاب کا سبب بنتی ہیں، کیوں کہ سیلاب کا پانی اترتے ہی یہ وبائی امراض بہت تیزی سے پھوٹ پڑتے ہیں۔ محققین کے مطابق یہ شماریاتی ماڈل کسی بھی ملک کی پبلک ہیلتھ پالیسی بنانے میں بھی مدد گار ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے ذریعے نہ صرف ڈینگی بلکہ دیگر وبائی امراض کے پھیلنے کے رسک کو کم کیا جاسکتا ہے۔
یہ ماڈل پاکستان میں ایک ہیلتھ پالیسی اور ڈیزاسٹر اسٹریٹجی بنانے میں بہت معاونت کرسکتا ہے جہاں لاہور و کراچی جیسے بڑے شہروں میں بھی نکاسی آب کا درست انتظام نہیں اور معمول سے تھوڑی زیادہ بارشیں ہوتے ہی پورے شہر دریا کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں جبکہ گنجان آبادی والے علاقوں میں کئی کئی روز بارش کا پانی کھڑا رہنے کے باعث مچھروں کی افزائش کا سبب بنتا ہے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے میں ناکامی، سندھ نے وفاق سے مدد مانگ لی اگر 1995ء یا اس کے بعد کسی بھی سال سے شماریاتی ڈیٹا تیار کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ابتداء میں ڈینگی کے زیادہ تر کیسز صوبہ بلوچستان میں سامنے آئے تھے جہاں وقتاً فوقتاً طویل یا مختصر المدت خشک سالی کے اوقات اب معمول بن چکے ہیں جبکہ 2018ء میں یہ کیسز سندھ سے رپورٹ ہوئے ہیں جہاں بارشوں کی قلت کے باعث
خشک سالی جڑیں پکڑتی جارہی ہے۔ لہٰذا شماریاتی ڈیٹا کی بنیاد پر یہ پیش گوئی کرنا آسان ہوگا کہ اگلے چند ماہ یا 2019ء میں کون سے صوبے یا مخصوص علاقوں کو ان وبائی امراض کے حملے کا سامنا رہے گا۔ اس ماڈل کی بنیاد پر ہر صوبے میں ایک ارلی وارننگ سسٹم بھی بنایا جاسکتا ہے جو ہر طرح کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہو اور مقامی میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہو۔
تاکہ پانی کے ذخائر اور درجہ حرارت کے حوالے سے مسلسل معلومات ملتی رہیں اور ان معلومات کی بنیاد پر 2 سے 3 ماہ پہلے وارننگ جاری کی جائے اور مقامی افراد کو اس کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنے اطراف میں صفائی وستھرائی کا بھرپور انتظام کرتے ہوئے باقاعدگی سے جراثیم کش سپرے کریں، پانی کے ذخائر کو آلودہ اور بدبودار ہونے سے بچایا جائے تاکہ ڈینگی مچھر کی افزائش نسل کو روکا جا سکے۔ بے شک صحت سے متعلق پالیسی بنانا حکومت کا کام ہے۔
مگر جب تک مقامی آبادی ان پالیسیوں میں عمل درآمد میں حکومت کی معاونت نہیں کرے گی تب تک بدقسمتی سے یونہی ہر برس ڈینگی، چکن گونیا اور زیکا وائرس سمیت دیگر وبائی امراض نئے مقامات پر حملے کرکے اسی طرح تباہی پھیلاتے رہیں گے۔ مجبور و بے بس تماشائی بن کر خود کو قدرت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے اپنی مدد آپ کیجیے، اس زمین کا آپ پر حق ہے اور یہ آپ کی بھی اتنی ہی ہے جتنی کسی ماہرِ ماحولیات، ماہرِ ارضیات اور حکومت کی ہے۔