اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کے معروف صحافی، تجزیہ کار و کالم نگار حامد میر اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ 1995ء ابھی کل کی بات لگتی ہے راولپنڈی کی ایک عدالت نے رکن قومی اسمبلی شیخ رشید احمد کو ناجائز اسلحہ رکھنے کے الزام میں سات سال قید با مشقت اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔اس سزا کے بارے میں شیخ رشید احمد کے بیانات پہلے ہی
اخبارات میں شائع ہو چکے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ انہیں سات سال قید ملے گی۔جیسے ہی سزا سنائی گئی تو عدالت میں جج کے خلاف نعرے بازی شروع ہوگئی۔کچھ خواتین نے جوتیاں اتار کر جج لطف علی ملک کی طرف پھینکیں لیکن جج صاحب کمرہ عدالت سے بھاگ نکلے ۔شیخ رشید احمد کو بغیر لائسنس کلاشنکوف رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور دہشت گرد قرار دیکر سزا سنائی گئی لیکن کوئی انہیں دہشت گرد تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا ۔یوسف رضا گیلانی ا سپیکر قومی اسمبلی تھے انہوں نے شیخ صاحب کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں لانے کیلئے پروڈکشن آرڈر جاری کیا تو وزیر اعظم بے نظیر بھٹو ان سے ناراض ہو گئیں۔ وزیرقانون اقبال حیدر نے ا سپیکر کے اقدام کو درست قرار دیا تو انہیں وزارت قانون سے ہٹا دیا گیا۔مجھے پتہ تھا کہ شیخ رشید احمد کو سزا دلوانے میں گورنر پنجاب چوہدری الطاف حسین نے اہم کردار ادا کیا تھا ۔ وہ انتہائی پڑھے لکھے انسان تھے اور میرے ساتھ بڑی شفقت کرتے تھے۔ ایک دن میں نے گستاخی کرتے ہوئے گورنر الطاف سے کہا کہ آپنے شیخ رشید احمد کو ایک جھوٹے مقدمے میں سزا دلوا کر اچھا نہیں کیا۔میرے الفاظ سنکر ان کے چہرے پر موجود مسکراہٹ ختم ہو گئی اور انہوں نے بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا کہ یہ شیداٹلی قومی اسمبلی کے فلور پر عالم اسلام کی پہلی منتخب خاتون وزیر اعظم کے بارے میں جو زبان استعمال کرتا ہے وہ ٹھیک ہے ؟
میں نے گورنر صاحب سے کہا بالکل نہیں شیخ صاحب نے محترمہ بےنظیر بھٹو کے بارے میں جو زبان استعمال کی وہ انتہائی گھٹیا اور قابل مذمت ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ اس پر جھوٹا الزام لگا دیں پھر شیخ رشید اور بے نظیر بھٹو میں کیا فرق رہ گیا؟ گورنر صاحب نے دو ٹوک لہجے میں کہا کہ ایک بات صاف صاف بتا رہا ہوں کہ شیخ رشید احمد کوسزا دلوانے کیلئے وزیراعظم صاحبہ نے کوئی فرمائش نہیں کی
انہیں کچھ پتہ نہیں کہ اس معاملے میں میرا کیا کردار ہے بس مجھے شیدے ٹلی کا لب ولہجہ ہضم نہیں ہوا میں نے اس گندی زبان والے کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ہے۔سزا یافتہ شیخ رشید احمد کو بہاولپور جیل بھیجا گیا اور میں شیخ صاحب کو ملنے بہاولپور جیل جایا کرتا تھا کیونکہ میں انہیں دہشت گرد نہیں بلکہ سیاسی انتقام کا نشانہ سمجھتا تھا ۔یہ وہ زمانہ تھا جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں سیاسی اختلاف دشمنی بن چکا تھا۔
پیپلز پارٹی نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو جنرل ضیاکی باقیات اور نواز شریف پیپلز پارٹی کی قیادت کو غدار کہتے تھے ۔نواز شریف نے اپنے پہلے دور حکومت میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری پر جھوٹے مقدمے بنائے اور جب پیپلز پارٹی حکومت میں آئی تو مسلم لیگ (ن) جھوٹے مقدمات کی زد میں آ گئی۔1997ءمیں نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو پیپلز پارٹی کا
پھر سے برا وقت شروع ہو گیا۔ احتساب بیوروکے سربراہ سینیٹر سیف الرحمان نے ایک جج جسٹس ملک محمد قیوم سے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کو کرپشن کے الزام میں سزا دلوائی تو محترمہ بینظیر بھٹو نے بی بی سی کو ایک انٹرویو دیا جس میں جسٹس قیوم کے فیصلے کو کینگروکورٹ کا فیصلہ قرار دیا ۔یہ انٹرویو 15اپریل 1999ء کو بی بی سی ٹیلی ویژن پر نشر ہوا ۔
کچھ دنوں بعد محترمہ بے نظیر بھٹو سے میں نے پوچھا کہ کینگرو کورٹ کیا ہوتی ہے ۔محترمہ نے اپنی عینک اتار کر بڑی تفصیل سے مجھے کینگرو کورٹ کا مطلب سمجھایا۔جو کچھ مجھے یاد رہ گیا ہے وہ یہ ہے کہ کینگرو ایک ایسا جانور ہے جو بہت بڑی چھلانگیں لگاتا ہے اور کینگرو کورٹ کا مطلب ایسی عدالت ہے جو حقائق پر سے لمبی چھلانگ لگا کر گزر جائے اور اپنی مرضی کا فیصلہ سنا دے ۔
پھر محترمہ نے مجھے پوچھا کہ کیا آپ نے کینگرو دیکھا ہے ؟میں نے اثبات میں سر ہلایا تو انہوں نے کہا کہ کینگرو کے جسم میں ایک بہت بڑ ی جیب ہوتی ہے وہ اس جیب کو اپنے بچے کی گود کے طور پر استعمال کرتا ہے اس لئے مغرب میں کچھ لوگ عدالتی فیصلوں پر تنقید کرنے کیلئے کینگرو کورٹ کا لفظ استعمال کرتے ہیں جس کا مقصد یہ کہنا ہوتا ہے کہ انصاف کینگرو کے بچے کی طرح کسی کی جیب میں پڑا ہے ۔
یہ سب بتانے کے بعد انہوں نے مجھے انگریزی میں پوچھا کہ آپ کو کینگرو کورٹ کی سمجھ آ گئی ؟میں نے ہاں میں سر ہلایا اور کہا کہ یہ ویسی ہی کورٹ ہوتی ہے جیسی کورٹ نے آپ کے دور حکومت میں شیخ رشید احمد کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ محترمہ میری اس بدتمیزی کو پی گئیں اور ان کے کردار کی یہی وہ خوبی ہے جو آج بڑے بڑے سیاست دانوں میں نظر نہیں آتی
۔21جولائی 2018ء کی رات راولپنڈی کی ایک عدالت نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کو ایفی ڈرین کا کوٹہ غلط استعمال کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی تو اچانک مجھے 1995ء میں شیخ رشید احمد کو سنائی جانیوالی سزا یاد آ گئی ۔جج نے یہ فیصلہ دوپہر ساڑھے بارہ بجے محفوظ کیا اور رات گیارہ بجے سنایا تاکہ حنیف عباسی کے وکیل کسی دوسری عدالت سے ریلیف نہ لے سکیں۔
حنیف عباسی پر ایفی ڈرین کے غلط استعمال کا مقدمہ 2012ء میں درج ہوا تھا جب وہ اپوزیشن میں تھے اور چوہدری نثار علی خان خاموشی سے شیخ رشید احمد کو مسلم لیگ (ن) میں واپس لانے کی کوشش کر رہے تھے ۔شیخ صاحب اور نثار کی مخالفت میں حنیف عباسی اتنے آگے چلے گئے کہ انہوں نے ان دونوں کے کچھ مبینہ سرپرستوں کے خلاف بیان دے ڈالے جنہیں قومی سلامتی کے
تقاضوں کی خلاف ورزی سمجھ کر حنیف عباسی کو سبق سکھانے کا فیصلہ ہوا ۔شیخ رشید احمد نے 21جولائی کی رات گیارہ بجے حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا سنائے جانے کے بعد کہا کہ ایک منشیات فروش اپنے انجام کو پہنچ گیا۔وہ بھول گئے کہ اس مقدمے کے آٹھ میں سے سات ملزم بری ہوگئے صرف حنیف عباسی کو سزا دی گئی تو کیا وہ اکیلا ہی منشیات فروشی کرتا تھا ؟
جج سردار اکرم کے سامنے منشیات کے وہ ا سمگلر کیوں نہ لائے گئے جن کو ایفی ڈرین بیچی گئی ؟ الیکشن سےچند دن قبل اس فیصلے نے پورے الیکشن کی ساکھ پرسوالات کھڑے کر دیئے ہیں کیونکہ حنیف عباسی کے خلاف مقدمے کی سماعت 2اگست کو مقرر تھی لیکن پھر اچانک چھ سال سے زیر سماعت مقدمے کو 21جولائی کی رات گیارہ بجے انجام تک پہنچا دیا گیا۔
میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جن پر نواز شریف کو سنائی گئی سزا اور انکی گرفتار ی کا کوئی اثر نہ ہوا لیکن حنیف عباسی کو عمرقید کی سزا سنائی گئی تو وہ پکار اٹھے کہ یہ سراسر ناانصافی ہے۔ شیخ رشید احمد اور عمران خان کو اس عمر قید کا فائدہ نہیں نقصان ہو گا ۔ایک طرف نقیب اللہ محسود کے قتل کے الزام میں گرفتار ہونے والے ایس ایس پی رائو انوار کو رہا کروا لیا گیا
اور یوں منظور پشتین کے موقف کو تقویت دی گئی۔ دوسری طرف رات گیارہ بجے حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا دلوا کر نواز شریف کے اس بیانیے کو آگے بڑھایا گیا کہ ایک لاڈلے کو جتوانے کیلئے انصاف کا قتل کیا جا رہا ہے ۔پشاور میں ہارون بلور اور مستونگ میں سراج رئیسانی کو دہشت گردی کانشانہ بنایا گیا تو وہاں ایک ایک حلقے میں الیکشن ملتوی ہوا لیکن الیکشن لہولہان نہیں ہوا۔
حنیف عباسی کے خلاف فیصلے نے پورے الیکشن کو زخمی کر دیا ہے۔ وہاں ایک امیدوار قتل ہوا تھا یہاں انصاف قتل ہو گیا۔ وہاں الیکشن ملتوی ہوا یہاں الیکشن لہولہان ہو گیا لیکن ہمیں یہ الیکشن سنبھالنا ہے ۔ 25جولائی کو جوق در جوق ووٹ ڈالنے کیلئے نکلیں اور دنیا کو یہ پیغام دیں کہ ایک عدالت عوام کی بھی ہوتی ہے جسے کوئی طاقتور کینگرو کورٹ نہیں بنا سکتا اور جب عوام کی طاقت اپنا فیصلہ سناتی ہےتو کینگرو کورٹ کا فیصلہ پاش پاش ہو جاتا ہے ۔