پیر‬‮ ، 18 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

میو ہسپتال لاہور کے ایک بنچ پر درد سے کراہتی ہوئی غریب ماں اور اس کی واحد خدمت گار 9 سالہ مریم، ہسپتال والوں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ افسوسناک انکشافات

datetime 16  جولائی  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور (نیوز ڈیسک) 2013ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) حکومت میں آئی تو اس نے بہت بلند و بانگ دعوے کیے، انہوں نے اپنے اہداف کی ایک لمبی فہرست تیار کی اور لوگوں سے وعدہ کیا گیا کہ تعلیم اور صحت کے لیے جی ڈی پی سیٹ کیا گیا کہ اسے 2018ء تک 2.4 تک لے کر جائیں گے لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے اہداف پر قائم نہ رہ سکی، ایک واقعہ ن لیگ کے تمام دعوؤں کی نفی کرتا ہے،

یہ سیالکوٹ کی ایک نو سالہ بچی مریم کی کہانی ہے جس کی والدہ ہسپتال میں بستر نہ ہونے کی وجہ سے باہر بنچ پر پڑی ہے۔ یہ ایک دل دہلا دینے والی کہانی ہے، جب یہ چھ سال کی تھی تو اس کا والدہ فوت ہو گیا تھا اس کی ماں نے ایک اور شخص سے شادی کر لی، اس کا سوتیلا باپ اسے اور اس کی ماں کو مارتا پیٹتا تھا، جس کی وجہ سے اس کی ماں نشہ کرنا شروع ہو گئی، اس کی وجہ سے مریم کی والدہ شدید بیمار رہنے لگی، سیالکوٹ کے ڈاکٹرز سے دوائی لی گئی مگر اسے معمولی آرام آتا مگر بعد میں وہی حالت ہو جاتی، اس کی والدہ پھیپڑوں کی بیماری میں مبتلا ہو چکی تھی، اس کی حالت خرابی ہوتی گئی، اس پر انہیں لاہور میوہسپتال جانے کا مشورہ دیا گیا، وہ اپنے ایک رشتہ کے گھر لاہور میں گئے جس نے انہیں میو ہسپتال چھوڑ دیا، وہاں سے بیمار والدہ کی ساری ذمہ داری نو سالہ مریم پر آن پڑی، وہ شعبہ ایمرجنسی میں گئے، وہاں ڈاکٹرز نے انہیں چیسٹ سرجری وارڈ بھیج دیا۔ لیکن اس کی والدہ کو کسی نے چیک نہیں کیا یہ نو سالہ بچی اپنی والدہ کو لے کر ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ کے پچھلے حصے میں ایک بنچ پر والدہ کو لٹا کر انتظار کر رہی ہے کہ شاید کوئی ان کی طرف توجہ دے، انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس وارڈ تک پہنچنے کے لیے انہیں ایک میل کا فاصلہ خود سے طے کرنا پڑے گا۔ پہلی رات مریم نے اپنی بیمار والدہ کے ساتھ باہر بنچ پر ہی گزاری۔

اگلی صبح بارش شروع ہو گئی اور وہ اپنی والدہ کو ایک چھت کے نیچے لے گئی تاکہ بارش سے انہیں بچا سکے۔ اس موقع پر مریم نے راہ چلتے لوگوں سے درخواست کی کہ وہ اس کی والدہ کو وارڈ تک لے جانے میں اس کی مدد کریں، وہ اسے وارڈ تک لے گئے مگر ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے انہیں ہسپتال میں داخل کرنے سے انکار کر دیا اور کہا گیا کہ بیڈ کی کمی کی وجہ سے انہیں داخل نہیں کر سکتے اور ان سے کہا گیا کہ

آپ لوگ دوسرے دن صبح نو بجے آئیں، بچی اپنی والدہ کو لے کر دوبارہ باہر بنچ پر آ گئی اور اب اس کے پاس والدہ کے لیے صرف ایک گیلا تکیہ اور گیلا کمبل تھا۔ جب رات کے دس بجے ایک شخص نے انہیں اس حالت میں دیکھا تو اس نے پوچھا تو معصوم بچی بلک بلک کر رو پڑی اور اپنی پوری افسوسناک کہانی سنا دی۔ وہ معصوم بھوکی تھی اور کھانے پینے کے لیے لوگوں سے مانگنے پر مجبور تھی۔ یہ ہے پاکستان کے پیرس کے سب سے بڑے ہسپتال کا حال۔ جہاں مریضوں کے بستر ہی موجود نہیں ہیں۔

موضوعات:



کالم



بس وکٹ نہیں چھوڑنی


ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…