ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

آپ نے جنرل ضیا الحق کو فوج کا سربراہ کیسے چن لیا؟ سزائے موت سے ذوالفقار علی بھٹو سے جب یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے کیا جواب دیا ؟ایسا تہلکہ خیز انکشاف جو ہر کسی کو حیران کر دے

datetime 3  جولائی  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)بلاشبہ پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو پاکستانی سیاست کی ایک انمٹ شخصیت ہیں اور ان کے پاکستانی سیاست پر نقوش آج بھی واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیا الحق نے برطرف کرتے ہوئے انہیں اقتدار سے محروم کر دیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ہی وہ شخصیت تھے

جنہوں نے کئی سینئر اور قابل جرنیلوںپر فوقیت دیتے ہوئے جنرل ضیا الحق کو آرمی چیف بنایا تھا اور پھر اسی کے ہاتھوں نہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا دھڑن تختہ ہوا بلکہ بعد کے حالات واضح کرتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے پیچھے جنرل ضیا الحق کی خواہش کارفرما تھی۔ تاہم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حوالے سے بحث کے حوالے سے جیل میں ذوالفقار علی بھٹو کی سکیورٹی پر مامور کرنل(ر)رفیع الدین کی یادداشتیں کافی اہمیت کی حامل ہیں جن میں کرنل(ر)رفیع الدین نے اس حوالے سے کئی اہم رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ کرنل (ر)رفیع الدین اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ جب میری اور بھٹو صاحب کی انڈر سٹینڈنگ ( Understanding ) کافی اچھی ہو گئی تو ایک دن میں نے ہمت کر کے ان سے دریافت کیا ’’ جناب آپ نے جنرل ضیاء الحق صاحب کو فوج کا سربراہ کیسے چن لیا‘‘انہوں نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد فرمایا’’ بھئی یہ جنرل ٹکا خان کی سفارش تھی۔ ٹکا صاحب نے سفارش کی کہ ان کے بعد جنرل ضیاء الحق کو ان کا جانشین بنایا جائے۔ جنرل ٹکا خان کا خیال تھا کہ جنرل ضیاء الحق ایک مذہبی قسم کا شخص ہے اور فوج کا سربراہ ہونے کے بعدوہ خود میں مشغول رہے گا اور حکومت کیلئے سیاسی معاملات میں کوئی ہلچل پیدا نہ کرے گا‘‘بھٹو صاحب کے اس بیان کی صداقت اﷲتعالیٰ ہی جانتا ہے کیونکہ ان کے پھانسی لگنے

کے کافی عرصہ بعد جنرل ٹکا خان صاحب نے ایک اخباری بیان کے مطابق یہ کہا تھا کہ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کو فوج کا سربراہ بنانے کی مخالفت کی تھی۔ بھٹو صاحب نے اسی ملاقات کے دوران مجھے یہ بھی بتایا کہ جنرل عبدالمجید ملک بھی چیف آ ف آرمی سٹاف کے عہدے کیلئے ایک موزوں شخص تھے۔ کہنے لگے جنرل عبدالمجید ایک روشن دماغ‘ عقل مند اور قابل جنرل تھے

لیکن وہ بدقسمتی سے اس عہدے کو نہ پا سکے۔ حالانکہ انہوں (مسٹر بھٹو) نے کافی چاہا لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ میں نے بھٹو صاحب کو جنرل عبدالمجید ملک کے ماتحت ایس ایس جی ( Special Service Group ) میں سروس کرنے کا حال سنایا اوران کی قیادت میں1965ء کی جنگ کا ذکر بھی کیا اور بعد میں1971ء کی جنگ میں ان کے کارہائے نمایاں کی تفصیل بھی بیان کی توکہنے لگے

کہ وہ ایک شائستہ اور سمجھدار جنرل ہیں اور فوج کے ایک اچھے سربراہ ثابت ہوتے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔بھٹو صاحب اپنی زندگی کے آخری 323 دن راولپنڈی جیل میں قید رہے۔ اس دوران میرے خیال میں ان کو کبھی یقین نہ آیا تھا کہ انہیں تختۂ دار پر چڑھا دیا جائے گا۔ ان کے وکلاء‘ فیملی ممبرز اور جیل میں ملنے والے تقریباً تمام لوگوں کے ان سے اس مقدمے کے متعلق ہمیشہ یہی کہا کہ

یہ صرف سیاسی کھیل تماشہ ہے۔ انہیں بیرونی ممالک کے سربراہوں اور کئی دوسری شخصیات کے جنرل ضیاء الحق اور ان کی حکومت پر اثرو رسوخ کا علم بھی تھا۔ علاوہ ازیں بھٹو صاحب کے کچھ بیرونی دوستوں نے جنرل ضیاء ا لحق صاحب سے ان کی معافی کا وعدہ تک بھی لے لیا تھا جو میرے خیال میں بھٹو صاحب کے علم میں بھی لایا گیا تھا۔ مقدمہ کی اپیل کے آخری چند ماہ کے دوران

جب مجھے یہ علم ہوا کہ حکومت بھٹو صاحب کو پھانسی دینے پر تلی ہوئی ہے تو میں نے ان کو اپنا مخلصانہ مشورہ دیا مگر انہوں نے ہر دفعہ یہی جواب دیا کہ یہ مقدمہ جھوٹا اور بناوٹی ہے اور ان کو کچھ پروا نہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے مگر وہ جھوٹ کے آگے کبھی سر نہیں جھکائیں گے۔ ان کے اس بہادرانہ جواب نے ان کی عزت میرے دل میں اور بڑھا دی۔ بلکہ جب تین اپریل1979ء کی

شام بھٹو صاحب کو سرکاری طور پر یہ بتایا جا رہا تھاکہ ان کو آخری فیصلہ کے مطابق اب پھانسی دی جا رہی ہے تو بھٹو صاحب اس موت کے پیغام پر مسکرا رہے تھے۔ اس وقت میں آپے سے باہر ہو گیا تھا اور ان کو پھانسی دی جانے پر ایک زبردست اضطراب کی حالت میں تھا۔چونکہ میں نے یہ ڈرامہ شروع سے آخیر تک دیکھا ہے اسلئے پورے وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ

بھٹو صاحب کو تختۂ دار پر چڑھنے کا کبھی خیال تک نہ آیا تھا۔میرا مخلصانہ مشورہ: بھٹو صاحب نے راولپنڈی جیل میں قید کے دوران مجھے یہ تاثر دیا کہ وہ اس کیس کے متعلق ذرہ برابر بھی فکر مند نہیں ہیں اور جب بھی میں نے ان سے اس سے متعلق کچھ کہا تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ چونکہ یہ بناوٹی کیس ہے اس لئے وہ کیوں فکر مند ہوں؟ جب ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھنے لگے

اور مجھے یقین ہو گیا کہ وہ میری عزت کرتے ہیں اور وہ یہ سمجھ گئے کہ میں اس کا دل سے خیرخواہ ہوں تو میں نے ان سے چند مرتبہ کہا کہ انہیں اس مقدمے کو اتنی لاپرواہی سے نہیں لینا چاہئے مگر انہوں نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ ان کا اس میں ذرہ بھی قصور نہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ بہت بڑے سیاستدان‘ مدّبر اور معاملہ فہم ہیں اور انہیں اپنی اس خداد صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے

اس حالت سے باہر نکلنے کی کوشش کرنی چاہئے مگر انہوں نے الٹا فوجی جنتا کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ میں نے ان سے کہا کہ جناب اگر آپ یہ بیان دیں کہ آپ ان جرنیلوں سے سٹاف کالج کے ٹوائلٹ صاف کروائیں گے اور کوئی بھی آئین سے انحراف کرنے سے نہیں بچ سکے گا تو آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ لوگ آپ کو ایسے ہی چھوڑ کراپنی مصیبت خود مول لیں گے؟ بہرحال میں نے

چند مرتبہ صدقِ دل سے ان سے عرض کیا کہ انہیں کسی نہ کسی طریقے سے اس حالت سے باہر نکلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ممکن ہے میرے دلائل سے وہ قائل نہ ہو سکے ہوں۔ بہرحال انہوں نے ہر بار مجھے یہی جواب دیا کہ اس مقدمے میں وہ بے قصور ہیں اور وہ کیوں اپنی عزت نفس کا سودا کریں۔ ممکن ہے ایسا راستہ اختیار کرنے میں ان کا سیاسی کردار( Political Career ) خراب ہوتا ہویاانہیں یقین ہو کہ وہ کبھی

ایسی سزا نہ پائیں گے۔ قید کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے کرنل(ر)رفیع الدین کے سامنے چند اہم پاکستانی شخصیات کا بھی ذکر کیا جس سے متعلق کرنل(ر)رفیع الدین تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک دن کہنے لگے کہ ایوب خان صاحب کئی نادر اور غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ وہ دراز قد‘ خوبصورت اور نقش پذیر شخصیت کے مالک تھے

لیکن وہ بحرانوں ( Crisis ) میں کمزور دل کے مالک تھے۔ ( انہوں نے اپنے ہاتھ کے انگوٹھے اور کلمے والی انگلی کے درمیان کوئی انچ بھر کا فاصلہ رکھ کر یہ بات سمجھانے کی کوشش کی تھی)چونکہ بھٹو صاحب کو جیل میں سوائے خوراک اور ادویات وغیرہ کے باقی کسی قسم کی کوئی اشیاء نہ مل سکتی تھیں۔ کہنے لگے کہ ایک دفعہ ایوب خان صاحب نے ان کو جیل میں وسکی کی بوتلوں کاایک کریٹ بھیجا تھا

اور چونکہ انہیں ایک معمولی احسان بھی ہمیشہ یاد رہتا ہے‘ اس تحفے کی یاد بھی رہی۔ جب وہ خود حکومت میں واپس آئے تو ایوب خان صاحب کے فیملی ممبران کوٹیکس سے بچنے کے الزام میں دھر لیا گیا تھا لیکن انہوں نے اس احسان کو یاد کرتے ہوئے ان کے فیملی ممبران کی مددد کی اور اس مصیبت سے ان کی خلاصی کروائی تھی۔بھٹو صاحب کو ایوب خان صاحب سے سب سے بڑا گلہ یہ تھا کہ انہوں نے پہلا مارشل لاء لگا کرقوم اور جمہوریت پر بہت بڑا ظلم کیا۔ ان کے نزدیک یہ اقدام ایوب خان کا ناقابلِ معافی گناہ ہے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…