لاہور ( مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے اصغرخان عملدرآمد کیس میں وزارت دفاع سمیت تمام اداروں کو ایف آئی اے سے تعاون کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ پرویز مشرف کے پاکستان آنے میں جو رکاوٹ تھی وہ ختم کردی،اب یہ ان کی بہادری پر ہے کہ وہ آتے ہیں یا نہیں، پرویز مشرف آئیں اور دکھائیں کہ وہ کتنے بہادر ہیں۔
گزشتہ روز چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجازالحسن پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں اصغر خان عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی، میر حاصل بزنجو، عابدہ حسین، غلام مصطفی کھر اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اصغر خان عملدرآمد کیس میں مزید تاخیر برداشت نہیں کریں گے، ایک منٹ ضائع کیے بغیر تفتیش مکمل کی جائے۔چیف جسٹس کی جانب سے ڈی جی ایف آئی سے استفسار کیا گیا کہ کیا سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بیان ریکارڈ کروا دیا ہے؟ ۔جس پر انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کا بیان آچکا ہے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے نے جس کو بلایا اسے جانا ہوگا،اس عدالت کے دائرہ میں کسی ایجنسی کا کوئی زور نہیں ہے۔دوران سماعت سابق صدر پرویز مشرف کے حوالے سے چیف جسٹس نے ریمارکس دئے کہ پرویز مشرف کے پاکستان آنے میں جو رکاوٹ تھی وہ ختم کردی، اب یہ ان کی بہادری پر ہے کہ وہ آتے ہیں یا نہیں، پرویز مشرف آئیں اور دکھائیں کہ وہ کتنے بہادر ہیں۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جاوید ہاشمی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کہا تھا کہ میں بھاٹی سے انتخاب لڑوں تو نہیں جیت سکتا، ہاشمی صاحب میں نے الیکشن نہیں لڑنا، آئین کا تحفظ کرنا ہے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے جاوید ہاشمی سے استفسار کیا کہ آپ نے وزیر اعظم ہاؤس میں میرے کردار کی تعریف کی تھی؟ ۔جس پر سینئر سیاستدان نے کہا کہ میں آپ کی دل سے عزت کرتا ہوں۔
اس موقع پر عدالت میں موجود میر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ اصغر خان کیس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تفتیش میں شامل ہونے کا مقصد کسی کو بدنام کرنا یا ہراساں کرنا نہیں، اگر سرخرو ہوئے تو سب صاف ہوجائے گا۔بعد ازاں عدالت نے اصغر خان عملدرآمد کیس کی تحقیقات مکمل ہونے تک ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو بدستور اپنے عہدے پر کام کرنے کا حکم دیتے ہوئے تمام اداروں کو وفاقی تحقیقاتی ادارے سے تعاون کرنے کا حکم دے دیا۔
خیال رہے کہ 9 جون کو اصغر خان عملدرآمد کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کرایا تھا، جس میں انہوں نے 1990ء کی انتخابی مہم کے لیے 35لاکھ روپے لینے کے الزام کو مسترد کردیا تھا۔انہوں نے کہا ہے کہ1990ء کی انتخابی مہم کے لیے اسد درانی یا ان کے کسی نمائندے سے کوئی رقم نہیں لی اور نہ ہی کبھی یونس حبیب سے 35 لاکھ یا 25 لاکھ روپے وصول کیے۔
نواز شریف نے کہا کہ ان الزامات سے متعلق 14اکتوبر 2015ء کو اپنا بیان ایف آئی اے کو ریکارڈ کروا چکا ہوں۔اس کے علاوہ اصغر خان کیس میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اپنی جماعت پر عائد الزامات کے حوالے سے اپنا بیان حلفی جمع کرادیا تھا۔سراج الحق نے بھی 1990ء کے انتخابی مہم کے لیے آئی ایس آئی سے رقم لینے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے بیان حلفی میں کہا تھا کہ جماعت اسلامی 2007 میں رضاکارانہ طور پر عدالتی کارروائی کا حصہ بنی،ہم نے آئی ایس آئی سے کوئی رقم وصول نہیں کی، ہم کسی بھی فورم یا کمیشن میں جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔
واضح رہے کہ 1990 ء کی انتخابی مہم کے حوالے سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس انتخابی مہم کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل جماعتوں اور رہنماؤں میں پیسے تقسیم کیے گئے۔اس حوالے سے ایئر فورس کے سابق سربراہ اصغر خان مرحوم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، یہ کیس پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہے۔
خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے ایک بیان حلفی میں دعویٰ کیا تھا کہ سیاسی رہنماں میں یہ پیسے مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب سے لے کر بانٹے گئے تھے۔پیسے لینے والوں میں غلام مصطفی کھر، حفیظ پیرزادہ، سرور چیمہ، معراج خالد اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کا نام بھی سامنے آیا تھا۔
اصغر خان کیس میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پیسے بانٹنے کا یہ سارا عمل اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور دیگر قیادت کے بھی علم میں تھا۔سپریم کورٹ نے 2012ء میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے مسلم لیگ (ر) کے قائد میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم اور 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درنی پر عائد کی تھی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا تھا۔مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی نظرثانی اپیل دائر کر رکھی تھی جسے عدالت مسترد کرچکی ہے۔