اسلام آباد (نیوز ڈیسک) پاکستان کے معروف کالم نویس حامد میر اپنے تازہ ترین کالم میں لکھتے ہیں کہ بہت سال پہلے سیّد نور نے ’’عقابوں کا نشیمن‘‘ کے نام سے ایک فلم بنائی تھی۔ اس فلم کے ہیرو بابر علی اور ہیروئن ریما تھیں۔ اس فلم کا نام اتنا خوبصورت تھا کہ مجھے شک گزرا کہ شاید سیّد نور نے مستنصر حسین تارڑ کے کسی ناول پر اپنا دل ہار دیا ہے لیکن جب معلوم کیا تو اس فلم کا مستنصر حسین تارڑ کے کسی بھی ناول سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا اور یوں میں یہ فلم نہ دیکھ سکا۔
آج صبح اخبارات کے مطالعے کے دوران تارڑ صاحب کے کالم پر نظر پڑی تو وہ اپنے سر پر ہیٹ سجائے خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ ’’ہزار داستان‘‘ سنانے کو تیار تھے لیکن اُن کے کالم کا عنوان انتہائی قابلِ اعتراض تھا۔ بندہ ناچیز نے فوری طور پر اس قابلِ اعتراض کالم کو پڑھنا شروع کر دیا اور ہر چند سیکنڈز کے بعد مَیں مشکوک انداز میں کالم کے عنوان کو گھورتا جو کہہ رہا تھا ’’نواز شریف ہندوؤں کے بھگوان ہو گئے‘‘۔ تارڑ صاحب عام طور پر سیاسی کالم نہیں لکھتے اسی لئے تھوڑے سے ادبی چسکے کے لئے میں اُن کا کالم ضرور پڑھتا ہوں لیکن اس کالم میں وہ سیاست کے کیچڑ میں گوڈے گوڈے گھسے ہوئے تھے اور قلم کو تلوار کی طرح ایسے گھما رہے تھے کہ جو زد میں آئے پھڑک جائے۔ اُنہیں نواز شریف کے اُس بیان پر شدید غصہ تھا جس کے بارے میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بار بار کہہ رہے ہیں کہ ی ط رپورٹنگ کا شاخسانہ ہے۔ نواز شریف نے کہا تھا کہ ہم اجمل قصاب جیسے لوگوں کو سرحد پار جا کر ڈیڑھ سو لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت کیوں دیتے ہیں جس پر بھارتی وزیر دفاع نے کہا کہ نواز شریف نے ہمارے مو?قف کی تصدیق کر دی اور اعتراف کر لیا کہ ممبئی حملوں میں پاکستان ملوث تھا۔ تارڑ صاحب کے کالم میں کہیں وزیر اعظم صاحب کی تردید کا ذکر نہیں تھا۔ انہوں نے لکھا ’’ہندوستانیو جشن مناؤ کہ آج ایک اور جنرل ٹائیگر نیازی نے تمہارے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں جس کا نام نواز شریف ہے اور یہ پوجنے کے لائق ہے ایک دیوتا ہے
اس کے مجسّمے اپنے اپنے مندروں اور گھروں میں سجاؤ اور روزانہ اس کے چرنوں میں سر رکھ کر اس نئے بھگوان کا شکریہ ادا کرو جس نے اپنے ملک کے کروڑوں لوگوں کو جھوٹا اور دہشت گرد ثابت کر دیا اور ہماری جے جے کار ہو گئی۔ نواز شریف کی جے ہو۔‘‘ تارڑ صاحب کا کالم پڑھتے ہوئے میں بار بار رکتا رہا اور سوچتا رہا کہ تارڑ صاحب اپنے کالم کا عنوان ’’غداروں کا نشیمن‘‘ رکھ لیتے تو زیادہ اچھا ہوتا کیونکہ آج کل پاکستان میں غداروں کی بھرمار ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ نواز شریف شکل سے بڑے بھولے لگتے ہیں لیکن وہ اتنے بھی بھولے نہیں انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر ملک کو بدنام کیا ہے اور یہ آئین کی رُو سے غداری ہے۔‘‘
آخری میں لکھتے ہیں ’’میاں صاحب کو روک لیجئے۔ ان سے کچھ بعید نہیں کہ اپنے اگلے انٹرویو میں وہ ہندوستان کو بھولپن میں آگاہ کر دیں کہ مودی بھیا میں آپ کو نقشہ بنا کر دیتا ہوں کہ ہمارے ایٹم بم کہاں کہاں ہیں بے شک یلغار کر دیں لیکن مجھے پھر سے وزیر اعظم کے رتبے پر ضرور فائز کریں۔‘‘ یقین کیجئے کہ مجھے تارڑ صاحب کے لکھے ہوئے الفاظ پڑھ کر شدید افسوس ہوا۔ اس حالت افسوس میں اُن کا اخبار پرے پھینکا اور دوسرا اخبار اُٹھا لیا۔ ادارتی صفحہ کھولا تو سب سے اوپر عبدالقادر حسن صاحب کے کالم کا عنوان تھا ’’میاں صاحب بھارت چلے جائیں‘‘۔ یہ وہی عبدالقادر حسن ہیں جو کسی زمانے میں نواز شریف کے بڑے مداح تھے
لیکن آج انہوں نے لکھا تھا کہ ’’معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ میاں نواز شریف اپنا تازہ بیانیہ لے کر اپنے پرانے وطن بھارت سدھار جائیں کیونکہ ان کا یہ بیانیہ قوم کو قبول نہیں۔‘‘ انہوں نے بھی نواز شریف کو ’’ملک دشمن‘‘ کا خطاب دے ڈالا تھا۔ نواز شریف جب سے نااہل ہوئے ہیں اُن کے حق میں بھی لکھا جا رہا ہے اور مخالفت میں بھی لکھا جا رہا ہے لیکن نواز شریف کے حالیہ انٹرویو کے بعد تارڑ صاحب اور عبدالقادر حسن جیسے انتہائی سنجیدہ اور بزرگ کالم نگاروں کے لہجے میں پیدا ہونے والی تلخی کم از کم میرے لئے غیر متوقع تھی۔ نواز شریف یہ کہہ کر اس تلخی کو نظرانداز نہیں کر سکتے کہ مجھے غدار کہا نہیں جا رہا بلکہ کہلوایا جا رہا ہے۔
مستنصر حسین تارڑ اور عبدالقادر حسن عمر کے اُس حصے میں ہیں جہاں کسی کے کہنے پر نواز شریف کو غدار قرار دے کر وہ نہ تو چیئرمین پی ٹی وی لگنا چاہیں گے نہ کسی یورپی ملک میں سفیر بننا چاہیں گے۔ شاید اس تلخی کی وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بار بار نواز شریف کے انٹرویو کی تردید کی لیکن نواز شریف نے اپنی زبان سے انٹرویو کی تردید نہیں کی۔ موجودہ صورتحال میں نواز شریف یہ متنازعہ گفتگو نہ کرتے تو بہتر ہوتا کیونکہ یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ وہ بیرونی دشمنوں کے ساتھ مل کر پاکستانی ریاست کے لئے مشکلات پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن اس انٹرویو کی وجہ سے اُنہیں غدار قرار دینا اور اُن پر غداری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ انتہا پسندی ہے۔
تارڑ صاحب اور عبدالقادر حسن کا تعلق پنجاب سے ہے۔ عمران خان بھی پنجاب کی جم پل ہیں۔ نواز شریف پر غداری کے الزامات لگانے والوں کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ پنجاب کی رائے عامہ بدل رہی ہے لیکن دوسری طرف نواز شریف کا دفاع کرنے والوں کے لہجوں میں بھی بڑی گھن گرج ہے۔ ایک زمانے میں پنجاب کے سیاستدان اور دانشور ولی خان، غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ مینگل، خیر بخش مری، اکبر بگٹی، ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو غدار قرار دیا کرتے تھے۔ آج پنجاب کے اہل سیاست و دانش پنجاب کے ایک پاپولر سیاستدان کو غدار قرار دے رہے ہیں۔ یہ مکافات عمل ہے۔ غدار غدار کی اس بحث میں سے کچھ نہیں نکلے گا۔
نقصان صرف نواز شریف کا نہیں بلکہ سب کا ہو گا کیونکہ غداری کے ان الزامات سے سیاستدانوں کے بارے میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ نواز شریف نے اپنی سیاسی غلطیوں سے خود کو اور مسلم لیگ (ن) کو جتنا نقصان پہنچانا تھا وہ پہنچا لیا۔ اس وقت وہ شدید غصے میں ہیں اور غصے میں کوئی ایسی بات کر سکتے ہیں جو ملک میں نیا طوفان کھڑا کر سکتی ہے۔ اس طوفان کی موجیں جمہوریت کی کمزور اور ناتواں کشتی کے لئے بہت بڑا خطرہ بن سکتی ہیں۔ نواز شریف، عمران خان اور آصف علی زرداری بڑے دل کا مظاہرہ کریں اور جمہوریت کو بچا کر رکھیں۔ 2018ء میں عام انتخابات ہو گئے تو پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔ فاٹا کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے کے بعد انتخابات کے چند ہفتے کے التوا کا اندیشہ ہے لیکن یہ انتخابات ہر صورت میں 2018ء کے اندر اندر ہونے چاہئیں۔
تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات کی تیاری کرنی چاہئے۔ ایک دوسرے کے خلاف غداری کے مقدمات بنانے کے مطالبوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔ غداری کے الزامات نے آج تک ہماری تاریخ نہیں بدلی۔ ان الزامات نے ہمارا جغرافیہ بدل ڈالا۔ وہ جو واقعی ڈنکے کی چوٹ پر پاکستان توڑنے کا اعلان کرتے تھے اُن پر تو کوئی مقدمہ نہ چلا۔ جی ایم سیّد کے ساتھ جنرل ضیاء الحق کی بڑی محبتیں تھیں اور پھر اصغر خان کیس کی سماعت کے دوران پتہ چلا کہ حفیظ پیرزادہ کو جو رقم ملی وہ دراصل جی ایم سیّد کے لئے تھی۔ پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ بھی التوا کا شکار ہے کیونکہ نواز شریف نے بطور وزیر اعظم مشرف کو خود پاکستان سے بھگایا۔ آج نااہلی کے بعد نواز شریف خود غداری کے الزامات کی زد میں ہیں۔ نواز شریف پر غداری کا مقدمہ چلانا ہے تو پھر مشرف پر بھی چلانا ہو گا۔ مشرف پر مقدمہ نہیں چلے گا تو نواز شریف پر بھی نہیں چل سکتا۔ اور اگر دونوں پر غداری کا مقدمہ چلانا ہے تو مستنصر حسین تارڑ کو ’’غداروں کے نشیمن‘‘ پر کالم نہیں پورا ناول لکھنا پڑے گا۔