اسلام آباد (نیوز ڈیسک) جمعیت160 علماء اسلام کے امیر اور ایم ایم اے کے صدر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہمارے ملک میں قرآن وسنت کے نفاذکے علاوہ ہرکام میں جلدی ہوتی ہے ،ہر روز نت نئے قوانین عجلت میں پاس کئے جاتے ہیں اگر سستی اور غفلت ہے تو وہ اسلامی قوانین کے نفاذ میں ہے ٗ45 سال سے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پارلیمنٹ کی توجہ کی منتظر ہیں لیکن پارلیمنٹ کی توجہ اس طرف نہیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے منسٹر انکلیو میں جامع مسجد کی تعمیر مکمل
ہونے کے موقع پر منعقدہ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ نو آبادیاتی نظام ختم ہونے کے باوجود غلامی کی نئی صورتیں پیدا ہوگئی ہیں اور عالمی ادارے پارلیمنٹ ،معیشت اور دفاع پر اپنا دباو ہمیشہ برقرار رکھتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہماری پارلیمنٹ ، معیشت اور دفاع غیروں کے دباؤمیں ہے ۔انہوں نے انکشاف کیا کہ عنقریب ایک قانون پاس ہونے والا ہے جس کے تحت اقوام متحدہ کسی بھی تنظیم ،ادارے یا اس ادارے وابستہ کسی بھی فرد کو اگر دہشت گرد قرار دے دے تو چاہے ہمارے ملک میں اس کے خلاف کوئی ثبوت نہ ہو لیکن اقوام متحدہ کے دباو کی وجہ سے ہمارا ملک اسے دہشت گرد ہی کہے گا اور اس کے ساتھ دہشت گرد کا معاملہ ہوگا ،ملک ہمارا ہے ،قانون ساز ادارے موجود ہیں ،قانون نافذکرنے والے ادارے موجود ہیں ،آئین بنانے والے ادارے موجود ہیں لیکن اگر بین الاقوامی اداروں کی طرف سے کوئی ایسا قانون آجائے جو ہمارے داخلی قانون سے متصادم ہو تو پھر ہمارا داخلی قانون یہاں موثر نہیں ہوگا بلکہ بین الاقوامی قانون موثر ہوگا ،یہ غلامی ہے اور اسکو برقرار رکھا گیا ہے ٗ دوسری چیز معیشت کا میدان ہے اس شعبے میں ترقی پذیر ممالک ہو یا پسماندہ ممالک ،انکو جکڑلیا گیا ہے ۔آئی ایم ایف اور اس کے قرضے ،ورلدبینک ،ایشین بینک ،پرائیویٹ سیکٹر میں قرضے دینے پیرس گروپ ہو یا لندن گروپ ہو ، انہوں نے پوری دنیا کی معیشت کو160 جکڑ لیا ہے
اور اب160 ہم بجٹ ان اداروں کی مشاورت سے تیار کرتے ہیں بظاہر اسمبلی میں پیش ہوتا ہے کہ جیسے ہم بجٹ دے رہے ہیں اگر اسمیں کمزوریاں ہو تو تنقید حکومت پر ہوتی ہے لیکن درحقیقت یہ بجٹ آئی ایم ایف ایسے اداروں کا تیار کردہ ہوتا ہے ،انکی شرائط پر ہم 70سال سے عمل درآمد کررہے ہیں ۔یہ ہماری معاشی غلامی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ جب انویسمنٹ ہم نے کرنی ہے تو فیصلے اور شرائط بھی ہماری ماننی ہوگی ۔ انہوں نے کہاکہ تیسرا شعبہ دفاع کا ہے ۔
ملک ہمارا ،اسلحہ ہمارا ،نظم ہمارا ،ایٹم بم ہمارا لیکن اسے استعمال کرنے کا اختیار ہمارے ملک کے پاس نہیں ہے ۔آئے روز معاہدات ہوتے ہیں کبھی سی ٹی بی ٹی پر دستخط کا کہا جاتا ہے اور اپنے دفاعی نظام کو ان معاہدات کے اندر لے آو جہاں فیصلے بین الاقوامی ادارے کریں گے اور ہم اس کے تابع ہونگے ٗیہ تین شعبے ایسے ہیں ہماری پارلیمنٹ ، معیشت اور دفاع کی جو بین الاقوامی اداروں کے کنٹرول میں ہیں ۔اب اگر آپ حدود اللہ کے نفاذکی بات کریں اور بین الاقوامی ادارہ اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے
تو ہزار دفعہ یہ کہنا سود مند نہیں ہوگا کہ یہ میرے قرآن کا قانون ہے کیونکہ160 بین الاقوامی ادارہ اس کے خلاف ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ان شعبوں میں بھی آزادی حاصل کرنی ہوگی ۔70 برس گذر گئے اور ہم ترقی سے تنزل کی طرف آرہے ہیں ۔ہم آزاد ہونے کے باوجود غلام ہیں ۔حقیقی آزادی کی طرف سفر شروع نہیں کیا ۔وہ قوتیں غنیمت ہیں جو سیاسی جد وجہد کے ذریعے پاکستان کو حقیقی آزادی سے ہمکنار کرنے کی جدوجہد سے وابستہ ہیں،ان شاء اللہ ایک دن یہ جد وجہد کامیاب ہوگی ۔اس کیلئے احساس ہونا چاہئے
ٗاحساس زندہ ہو تو عمل کا دور آتا ہے اور جب عمل زندہ ہوتا ہے تو منزل بھی مل جاتی ہے ،ہزار میل کا سفر کرنا ہو تو آغاز پہلے قدم سے ہوگا ،لیکن اگر چلنے کی توانائی ہی نہیں تو پھر سفر کا تصور ہی نہیں اور اگر160160 توانائی ہے تو ایک جست میں منزل تک پہنچنا ممکن نہیں بلکہ درجہ بدرجہ قدم بڑھانا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ مساجد معاشرے کو اچھا ماحول فراہم کرتی ہے ۔انہوں نے کہا حقیقی آزدی اللہ کی بندگی ہے ،اس موقع پر انہوں نے وفاقی وزیر ہاؤسنگ اکرم خان درانی اور انکی ٹیم کو
خراج تحسین پیش کیا ۔ اس موقع پر بلیغ الرحمان نے اذان دے کر باقاعدہ افتتاح کیا ،مولنا سعید یوسف جمعہ کے اجتماع سے پرسوز خطاب کیا قائد جمعیت نے خطبہ اور امامت کروائی ،نماز کے بعد پاکستان اور امت مسلمہ کے لئے دعائیں مانگی ،مولانا لطف الرحمان ، مولانا عطاء اللہ شہاب ، قاری سہیل عباسی ، مولانا سلیم اللہ ، مفتی ابرار احمد ، مولانا امین اللہ ، مفتی اجمل160 ، مولانا احمدا لرحمان اور ہاوسنگ کے کئی ملازمین نے شرکت کی ۔