اسلام آباد (نیوزڈیسک )ماہرین کو خدشہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت سمارٹ فونز اور سیٹ نیوو جیسے آلات پر دستیاب نقشوں پر اتنا زیادہ انحصار کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ اب نقشہ بینی کی روایتی مہارت کے متروک ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔برطانیہ کے نقشہ سازی اور نقشہ بینی کے معروف ادارے رائل انسٹیٹیوٹ آف نیویگیشن کا کہنا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی پر زیادہ انحصار کا مطلب یہ ہے کہ لوگ روایتی طریقوں سے اپنا راستہ تلاش کرنے کی صلاحت کھو رہے ہیں۔اس خدشے کے پیش نظر آر آئی این کی خواہش ہے کہ سکولوں میں بچوں کو نقشہ بینی کی بنیادی تربیت حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ادارے کے صدر روجر میکنلے کہتے ہیں کہ ہمارہ معاشرہ نت نئے سوفٹ ویئرز کے نشے میں مبتلا ہو چکا ہے۔ یہ فکرمندی کی بات ہے کہ آج کل کے بچے سکول اور گھر میں نئے نئے آلات پر تلاش کا بٹن دبانے کے علاوہ کچھ اور نہیں سیکھ رہے۔روجر میکنلے کے بقول اکثر لوگ اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے نہ تو کوئی نقشہ پڑھ سکتے ہیں اور نہیں ہی قطب نما استعمال کر سکتے ہیں۔ستاروں کی مدد سے کسی مقام کی نشاندھی کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔ ہماری جو نسلیں پروان چڑھ رہی ہیں ان کا انحصار نئی ٹیکنالوجی پر اس قدر زیادہ ہوگیا ہے کہ سمارٹ فونز اور سیٹ نیووز سے نکلنے والے سنگلز ہی ان کے لیے معلومات کا واحد ذریعہ بن چکے ہیں۔آر آئی این کا خیال ہے کہ نقشہ بینی سے آپ کی شخصیت سازی ہوتی ہے، آپ خود کو زیادہ آزاد محسوس کرتے ہیں اور آپ سائنس اور ریاضی کی قدر کرنا سیکھتے ہیں۔آر آئی این کے ڈائریکٹر پیٹر اینڈریوز نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات بڑی ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی انسانی سوچ کی جگہ نہ لے لے۔انھوں نے خبردار کیا کہ ضروری نہیں کہ سمارٹ فونز اور سیٹ نیووز میں لگے ہوئے جی پی ایس ہمیشہ آپ کو درست سمت ہی بتائیں۔ مسٹر اینڈریوز کا کہنا تھا کہہم لوگ ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں ہیں۔ بلکہ ہم ٹیکنالوجی کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، لیکن ہم اپنی عقل استعمال کیے بغیر ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے کے خلاف ہیں۔ اس سلسلے میں برطانیہ میں نقشہ سازی کے قومی ادارے آرڈنینس سروے کا کہنا تھا کہ اگر آپ نقشہ پڑھنے کا ہنر سیکھ لیتے ہیں تو آپ گھر سے باہر اپنے وقت سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں، چاہے آپ اس وقت چہل قدمی کر رہے ہوں، سائیکل چلا رہے ہوں، گ±ھڑ سواری کر رہے ہوں یا محض سیر کو نکلے ہوں۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں