اسلام آباد (نیوز ڈیسک) نوجوان نسل نے خود کو سوشل میڈیا کا اس قدر عادی بنا لیا ہے کہ ان کی دن بھر کی سرگرمیوں میں کہیں نہ کہیں سوشل نیٹ ورکنگ اور مائیکروبلاگنگ کی ویب سائٹس کا نام لازمی شامل ہوتا ہے۔ ہر فرد اپنے معمولات کو یہاں شیئر کرنے کیلئے خود پر شدید دباو¿ محسوس کرتا ہے، دوسری جانب تقریباً ہر فرد ہی یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس کی موجودگی میں ہر فرد یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ ان ویب پیجز کی وجہ سے ان کا وقت ضائع ہوتا ہے۔درحقیقت ماہرین یہ کہنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس پر زیادہ وقت گزارنے والے افراد ڈپریشن کا شکار ہونے لگتے ہیں کیونکہ وہ ان ویب پیجز کے ذریعے خود کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں، جس میں ان کا اصل ماحول موجود نہیں ہوتا، دوسرے الفاظ میں وہ اپنی اصل دنیا سے کٹ جانے کے سبب خود کو میلے سے بچھڑے ہوئے بچے کی سی حیثیت کا حامل محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اس حوالے جینی کم جو کہ معروف ویب سائٹ ہیلتھ ڈاٹ کام پر ایڈیٹر کے طور پر کام کرتی ہیں، نے اپنے تاثرات بانٹے ہیں جس میں اس نے بتایا ہے کہ سوشل میڈیا سے حاصل ہونے والی خوشی پر جب مایوسی اور ڈپریشن کی کیفیت پوری طرح غالب ہونے لگی تو اس نے فیس بک چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ فیس بک چھوڑنے سے حاصل تجربات کو جینی نے قارئین کی دلچسپی کیلئے سپرد قلم کیا ہے جنہیں قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش کیا جارہا ہے۔
فیس بک اور دیگر سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس سے جان چھڑانے کا واحد راستہ ان سے مکمل طور پر پیچھا چھڑانا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ اپنا اکاو¿نٹ ڈیلیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ اس ایپ کو بھی موبائل سے ان انسٹال کیا جائے۔ اس کا استعمال محدود کرنے کا عزم علیحدہ چیز ہے جبکہ اصل میں اس فیصلے پر عمل دوسری چیز ہے اور صورتحال کا واحد حل یہی ہے کہ فیس بک کو مکمل طور پر ان انسٹال کردیا جائے۔
سوشل میڈیا کو ترک کرنے سے زندگی کی رنگینی کا احساس ہوتا ہے، اپنے اطراف میں موجود سرگرمیوں میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے اور ان کے مسائل پر غور کرنے کی فرصت ملتی ہے جبکہ فیس بک کی بدولت اپنے فرینڈز کی ہنی مون کی تصاویر دیکھ کے یہ احساس بیدار ہوتا ہے کہ ہمارا ہنی مون ٹرپ کتنا بکواس تھا اور یہ کہ اصل مسئلہ افریقہ میں عوام کی بھوک نہیں بلکہ کائلی جینر کی ہونٹوں کو موٹا کرنے والی سرجری ہے۔
فیس بک ترک کرنے پر یہ احساس ہوتا ہے کہ دن کے چوبیس گھنٹوں میں کس قدر برکت ہوتی ہے۔ اس سے قبل دفتر سے واپسی کا سارا وقت صوفے پر فیس بک کا پیج اوپر سے نیچے کرنے میں گزرتا تھا اور وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہوتا تھا جبکہ فیس بک سے جان چھڑانے کے بعد اب دفتر سے واپسی پر احساس ہوتا ہے کہ ابھی سونے میں بہت وقت پڑا ہے اور یوں مہینے سے التواکا شکار کام بھی ختم ہوگئے ہیں۔
فیس بک، ٹوئٹر سے جان چھڑانے کے بعد میرا دماغ اس الجھن سے آزاد ہوچکا ہے کہ اس مذکورہ موقع کو میں فیس بک سٹیٹس یا پھر ٹوئٹ پر کس طرح سے ترتیب دوں گی۔ اب میں اس اصل صورتحال کو زیادہ بہتر طور پر سمجھتی ہوں اور اس وقت میں ڈوب کے لمحات کا لطف لیتی ہوں۔
آخر میں جینی کہتی ہیں کہ فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام سے دو ہفتے کی مکمل کنارہ کشی کے بعد میں نے جب ایک بار پھر لیپ ٹاپ سے فیس بک دیکھنے کا فیصلہ کیا تو میں صرف پانچ منٹ بعد ہی سکرولنگ سے تنگ آ کے لیپ ٹاپ بند کرکے رکھ چکی تھی۔ میں نے اپنے تجربے سے جانا کہ فیس بک کے بغیر بھی زندگی گزارنا آسان ہے، اسلئے اب اس سوشل نیٹ ورکنگ کے ذریعے کی میرے نزدیک وہ اہمیت باقی نہیں بچی ہے۔
فیس بک چھوڑنے سے کیا سیکھا
1
مئی 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں