اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف کالم نگار جاوید چوہدری اپنے 11ستمبر 2016کے روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والے کالم میں میں لکھتے ہیں کہ وہ نائب قاصد تھا‘ پوسٹل سروس کے چیئرمین کے دفتر پر کام کرتا تھا‘ وہ صاحب کی فائلیں ڈی جی کے آفس لے کر جاتا تھا‘ فائلیں وہاں سے اکاؤنٹس برانچ جاتی تھیں اور پھران فائلوں کو واپس چیئرمین آفس لانا بھی اس کی ذمے داری تھی۔
بندہ محمد بشیر کی ذمے داریاں یہیں تک محدود نہیں تھیں بلکہ گرمیوں میں صاحب کے آنے سے پہلے اے سی آن کرنا اور سردیوں میں ہیٹر جلا کر دفتر گرم کرنا‘ میز کی صفائی‘ ڈسٹ بِن کلیئر کرنا‘ باتھ روم میں تولیہ‘ صابن‘ ٹشو پیپرز‘ ٹوتھ پیسٹ اور ماؤتھ واش رکھنا‘ صاحب کی گاڑی کا دروازہ کھولنا‘ ڈکی سے بریف کیس نکالنا‘ مہمانوں کا استقبال‘ چائے پانی کا بندوبست‘ ٹفن باکس کھول کر لنچ لگانا‘ برتن دھونا‘ صاحب کا کوٹ اتارنا‘ میٹنگ سے پہلے کوٹ پہنانا‘ صاحب کا بریف کیس گاڑی تک لانا‘ صاحب کے لیے دروازے کھولنا‘ صاحب کے جانے کے بعد دفتر کو اپنی نگرانی میں لاک کرانا‘ بیگم صاحبہ کی فرمائشیں پوری کرنا‘ خانساماں کو سبزی‘ ترکاری‘ گوشت اور اناج کی دکانوں تک لے کر جانا‘ درزی سے کپڑے لانا‘ بیگم صاحبہ کے جوتے تبدیل کرانا اور دھوبی کے ساتھ حساب کرنا بھی اس کے فرائض میں شامل تھا لیکن ان تمام فرائض کی ادائیگی کے بعد اسے صرف آٹھ ہزار روپے ملتے تھے‘ یہ آٹھ ہزار روپے اس کی کل متاع تھے‘ زندگی کے تمام تقاضے آٹھ ہزار روپے کے اس کمزور سے ستون پر کھڑے تھے اور یہ ستون روز دائیں بائیں لرزتا کانپتا تھا۔وہ نسلوں سے غریب تھا‘ والد بھی نائب قاصد تھا‘ وہ فوت ہونے سے پہلے اسے بھی نائب قاصد بھرتی کرا گیا‘ تعلیم انڈر میٹرک تھی اور یہ تعلیم بھی اس نے ٹھنڈی ننگی زمین پر بیٹھ کر حاصل کی تھی‘
بہنیں شادی شدہ تھیں مگر وہ بھی عسرت ناک زندگی گزار رہی تھیں‘ ایک بڑا بھائی تھا‘ وہ غربت کی وجہ سے بھاگ گیا‘ وہ آخری بار کراچی میں دیکھا گیا‘ اس کے بعد اس کی کوئی خبر نہیں ملی‘ چیئرمین صاحب کی مہربانی سے والد کا سرکاری کوارٹر اس کے نام منتقل ہو گیا‘ یہ بوسیدہ‘ بدبودار کوارٹر اس کی کل کائنات تھا لیکن ٹھہریئے کوارٹر کے علاوہ بھی اس کی ایک کائنات تھی۔یہ کائنات بوڑھی بیمار والدہ تھی‘
بندہ محمد بشیر نے بچپن میں مولوی صاحب سے سن لیا‘ ماں کی خدمت کرنے والا دنیا اور آخرت دونوں میں سرفراز ہوتا ہے‘ یہ نکتہ بیج بن کر اس کے دماغ کی زرخیز مٹی میں گرا اور وہ بیج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تناور درخت بن گیا‘ ماں اس کی واحد پناہگاہ تھی اور وہ ماں کا تنہا سہارا تھا‘ وہ دن کے وقت چیئرمین صاحب کی چاکری کرتا تھا اور صبح‘ شام اور رات میں والدہ کی خدمت‘
یہ اس کی کل زندگی تھی‘ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں بندہ محمد بشیر نے شادی نہیں کی‘ کیوں؟ یہ وجہ بھی اس کی زندگی کی طرح دلچسپ تھی۔بندہ محمد بشیر کی والدہ حج کرنا چاہتی تھی‘ یہ والدہ کی زندگی کی واحد خواہش تھی‘ بندہ محمد بشیر جب ماں کی گود میں تھا تو ماں اسے تھپتھپاتی تھی‘ ہلاتی تھی‘ لوریاں دیتی تھی اور ساتھ ساتھ کہتی جاتی تھی ’’میرا محمد بشیر مجھے حج کرائے گا‘
میرا محمد بشیر مجھے مکے مدینے لے کر جائے گا‘‘ بندہ محمد بشیر یہ فقرہ سن سن کر بڑا ہوا تھا چنانچہ اس نے ماں کے حج کو بھی اپنے فرائض کا حصہ بنا لیا تھا‘ وہ ماں کو ہر صورت حج کرانا چاہتا تھا‘ حج مہنگا تھا اور بندہ محمد بشیر کی آمدنی قلیل تھی‘ وہ اگر اس قلت میں شادی بھی کر لیتا تو ماں کا حج ناممکن ہو جاتا چنانچہ اس نے ماں کے حج تک شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
وہ ہر ماہ اپنی قلیل آمدنی سے ڈیڑھ دو ہزار روپے بچا لیتا تھا اور ماں کے حج فنڈ میں جمع کر دیتا تھا‘ یہ فنڈ چیونٹی کی طرح رینگتا رینگتا آگے بڑھ رہا تھا‘ ہم اسٹوری کو یہاں روکتے ہیں اور آپ کو یہ بتاتے ہیں لوگ محمد بشیر کو بندہ محمد بشیر کیوں کہتے تھے‘ اللہ تعالیٰ نے محمد بشیر کو عاجزی اور انکساری کی نعمت سے نواز رکھا تھا‘ وہ جس کو بھی اپنا تعارف کراتا تھا‘
ذرا سا جھکتا تھا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر کہتا تھا ’’بندے کا نام ہے محمد بشیر‘‘ سننے والوں کو ہنسی آ جاتی تھی‘ لوگوں نے آہستہ آہستہ اس کا نام ہی بندہ محمد بشیر رکھ دیا‘ وہ اس ٹائٹل پر خوش تھا‘ وہ درخواستوں میں خود اپنا نام بندہ محمد بشیر لکھ دیتا تھا اور یوں وہ سچ مچ بندہ محمد بشیر بن گیا۔ہم واپس ماں کے حج کی طرف آتے ہیں‘ بندہ محمد بشیر نے بہرحال 2005ء میں حج کے پیسے جمع کر لیے‘
وہ درخواست جمع کرانے گیا تو پتہ چلا ماں محرم کے بغیر حج نہیں کر سکتی‘ یہ نئی افتاد تھی‘وہ بڑی مشکل سے دس سال میں ایک حج کے پیسے جمع کر پایا تھا‘ وہ اب اپنے لیے کہاں سے پیسے لاتا؟ وہ ہمت ہار گیا اور پریشانی کے عالم میں گلیوں میں پھرنے لگا‘ اس دوران ایک اور واقعہ پیش آ گیا‘ محمد نعیم ساتھی نائب قاصد تھا‘ نعیم کا بیٹا پتنگ اڑاتا ہوا چھت سے گر گیا‘ بچہ شدید زخمی تھا۔
نعیم کو آپریشن کے لیے دو لاکھ روپے چاہیے تھے‘ اس نے دوڑ بھاگ کر کے لاکھ روپے جمع کر لیے‘ لاکھ روپے کی کمی تھی‘ نعیم مجبوری کے عالم میں بندہ محمد بشیر کے پاس آ گیا‘ محمد بشیر عجیب مخمصے کا شکار ہو گیا‘ وہ حج کی دوسری درخواست کے لیے خود قرض تلاش کر رہا تھا جب کہ محمد نعیم اس سے ماں کی درخواست کے پیسے بھی مانگ رہا تھا‘ وہ نعیم کو انکار کرتا
تو بچے کے بچنے کے امکانات کم ہو جاتے اور وہ اگر حج کے پیسے نعیم کو دے دیتا تو ماں بیمار تھی وہ حج کے بغیرہی دنیا سے رخصت ہو جاتی۔محمد بشیر بری طرح پھنس گیا‘ نعیم کے پاس وقت کم تھا‘ وہ محمد بشیر کے قدموں میں جھک گیا اور یہ وہ لمحہ تھا جس میں بشیر نے اپنی زندگی کا مشکل ترین فیصلہ کیا‘ وہ گھر گیا‘ الماری سے رقم نکالی اور نعیم کے حوالے کر دی‘ وہ اس کے بعد سیدھا مسجد گیا‘
دو رکعت نماز نفل پڑھی اور اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کی ’’یا باری تعالیٰ میری کوشش میں کوئی کمی نہیں تھی‘ شاید آپ ہی کو منظور نہیں تھا‘ آپ اب میری ماں کو صبر دے دیں‘ آپ اسے حوصلہ دے دیں‘‘ یہ دعا دعا کم اور دوا زیادہ تھی‘ وہ اطمینان قلب کی دولت سمیٹ کر گھر واپس آیا اور گہری نیند سو گیا۔بندہ محمد بشیر کا اگلا دن حیران کن تھا‘ محکمے نے دو سٹاف ممبرز کو سرکاری اخراجات
پر حج پر بھجوانے کا فیصلہ کیا‘ قرعہ اندازی ہوئی اور بندہ محمد بشیر اور محمد نعیم کے نام نکل آئے‘ محمد نعیم کو اسپتال میں اطلاع دی گئی‘ وہ سیدھا دفتر آیا‘ چیئرمین سے ملاقات کی اور محمد بشیر کی زندگی‘ دس سال تک ماں کے حج کے لیے رقم جمع کرنے اور پھر یہ رقم زخمی بچے کے آپریشن کے لیے دینے تک ساری داستان انھیں سنا دی‘ چیئرمین کے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔
محمد نعیم نے چیئرمین سے عرض کیا ’’میری درخواست ہے آپ میری جگہ محمد بشیر کی والدہ کو حج پر بھجوا دیں‘ میں جوان آدمی ہوں‘ مجھے اللہ تعالیٰ مزید مواقع دے گا‘‘ چیئرمین کے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی‘ نعیم نے درخواست دی‘ چیئرمین نے منظوری دے دی اور یوں بندہ محمد بشیر اپنی والدہ کو ساتھ لے کر حج پر روانہ ہو گیا‘ محمد بشیر حج کے دوران اپنی ماں کی جی جان سے خدمت کرتا رہا‘
یہ خدمت دیکھ کر ایک ساتھی خاندان متاثر ہوا اور حج کے دوران ہی اسے بیٹی کا رشتہ دے دیا‘ وہ اور اس کی والدہ واپس آئے‘ چند ماہ بعد شادی ہوئی۔سسر نے بیٹی کو جہیز میں دس مرلے کا چھوٹا سا مکان دے دیا‘ یہ لوگ نئے گھر میں شفٹ ہوئے‘ لڑکی پڑھی لکھی اور سمجھ دار تھی‘ اس نے گھر میں دس سلائی مشینیں رکھیں‘ محلے کی لڑکیاں اکٹھی کیں اور اپنا بوتیک بنا لیا‘ بوتیک کامیاب ہو گیا‘
آج دس برس بعد بندہ محمد بشیر ملک محمد بشیر بن چکا ہے‘ یہ ہر سال دس ضرورت مندوں کو حج کراتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہے‘ یہ اپنی کامیابی کو کامیابی نہیں حج اکبر کہتا ہے‘ ایک ایسا حج جس کا دروازہ محمد نعیم کے زخمی بیٹے کے زخمی سر میں تھا اور محمد بشیر اس پھٹے ہوئے کھلے سر سے ہوتا ہوا خانہ کعبہ پہنچا تھا ’’ دی بیسٹ روڈ ٹو مکہ‘‘۔