اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)جرمنی دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں شاندار ڈگریاں اور ڈپلومے مفت ہیں اس لیے طالب علموں کی کثیر تعداد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے وہاں جانا بہت پسند کرتی ہے اس کے علاوہ ایک اور وجہ جرمنی کی ڈگریوں کا مستند ہونا اور دنیا بھر میں تسلیم کیا جاناہے۔ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا، تحقیق میں انتہائی اعلیٰ اور عملی تربیت پر مبنی ہونا وہاں کے نظام تعلیم کی مقبولیت کی دوسری بڑی وجوہات ہیں۔
تعلیمی اداروں میں معیارِ تعلیم شاندار ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کیو ایس رینکنگ کے مطابق جرمنی کی 43 یونیورسٹیاں عالمی رینکنگ کی 700 ٹاپ یونیورسٹیوں میں شامل ہیں۔ وہاں پبلک یونیورسٹیوں کی فیس نہ ہونے کے برابر ہے جو پاکستانی روپوں میں فی سمسٹر تقریباً تین سے چار ہزار روپے بنتی ہے۔ یعنی دنیا کی شاندار ڈگریاں اور ڈپلومے مفت ہیں لیکن عام طور پر اپنے قیام و طعام کے اخراجات خود ہی برداشت کرنا ہوتے ہیں۔رہائش پر چار پانچ سو یورو ماہانہ خرچہ آ جاتا ہے۔ مزید برآں اس فیس کا انحصار کمرے میں موجود سہولیات اور اس کے طول و عرض پر ہوتا ہے۔ رہائش کا انتظام خود کرنے والے طلبہ کو زیادہ اخراجات کرنا پڑتے ہیں۔ دوسرے طالب علموں کے ساتھ کمرہ شیئر کرنے سے ان کو کم کیا جا سکتا ہے۔آپ ہاسٹلز میں رہنے کو ترجیح دیں کیوں کہ وہاں رہ کر آپ دنیا بھر کے لوگوں، ان کے کلچر، ثقافت اور معاشرت کے بارے میں معلومات حاصل کر سکیں گے۔ اگر کسی یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ ہاسٹل موجود نہیں بھی ہیں تو یونیورسٹی انتظامیہ طالب علم کو رہائش تلاش کرنے میں بہت مدد دیتی ہے یا پرائیویٹ طور پر فراہم کرتی ہے۔ٹرانسپورٹ کےلئے سٹوڈنٹ پاس لینا پڑتا ہے جسے سٹوڈنٹ کارڈ کہا جاتا ہے۔ بہت سی یونیورسٹیاں تو اس کی فیس
اپنی سمسٹر فیس میں ہی شامل کر لیتی ہیں اور پھر آپ کا اس پورے شہر میں آنا جانا مفت ہو جاتا ہے۔ کھانے پینے پر دو تین سو یورو ماہانہ لگتے ہیں۔ یعنی ماہانہ لگ بھگ سات سے آٹھ سو یورو کے قریب اخراجات عام طور پر ہو ہی جاتے ہیں جو کہ پاکستان کے سوا لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک بنتے ہیں۔جرمنی جانے کے لئے منصوبہ بندی کرنا ضروری ہے کیوں کہ سٹوڈنٹ جاب کے ذریعے اتنے پیسے نکالنا تقریباً ناممکن ہے۔ والدین سے مدد کی ضرورت رہے گی
لیکن اگر آپ کسی ٹیکنیکل شعبے کے ماہر ہیں تو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، آپ نا صرف اپنے تعلیمی اخراجات با آسانی نکال لیں گے بلکہ بہت سے لوگ تو اپنے گھروں میں بھی پیسے بھجوا رہے ہوتے ہیں۔ یورو کمانے کے لئے کمپیوٹر سٹڈیز یا پھر کسی ٹیکنالوجی میں مہارت ضروری ہے۔طلبا و طالبات کے لئے ویزے کے حصول کو آسان بنایا گیا ہے۔جرمنی میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد 425 کے لگ بھگ ہے۔ 100 کے قریب یونیورسٹیاں،
200 کے قریب عملی تربیت کے اداروں کو وہاں ” اپلائیڈ یونیورسٹی“ کا درجہ حاصل ہے۔ جبکہ 125 کے قریب ادارے کسی خاص مضمون میں مہارت فراہم کرتے ہیں۔ ان تمام اداروں میں دنیا بھر سے طالب علموں کو فراخدلی کے ساتھ خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ اسی لئے غیر ملکی طلبا کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سے زائد ہے۔ ذرائع کے مطابق جرمن حکومت اگلے دو سال میں مزید 50 ہزار غیر ملکی طالب علموں کو داخلہ دینا چاہتی ہے۔