معروف کالم نگار و سینئر صحافی و تجزیہ کار جاوید چودھری نے اپنے کالم میں لکھا کہ جبل نیبو(Mount Nebo) بحر مُردار سے زیادہ دور نہیں تھی‘ نیبو بلند مقام تھا‘ تین اطراف گہری کھائیاں تھیں‘ پارکنگ کے سامنے گہرائی میں درختوں کا جھنڈ تھا‘ یہ جھنڈ عیون موسیٰ کہلاتا ہے‘ وہاں ایک غار میں پانی کے بارہ چھوٹے چھوٹے چشمے ہیں‘ عربی میں چشمے کو عین کہتے ہیں‘ عیون عین کی جمع ہے‘
مقامی لوگوں کا خیال ہے حضرت موسیٰ ؑ نے جس چٹان پر اپنا عصا مار کر بارہ چشمے جاری فرمائے تھے وہ مقام یہ ہے چنانچہ یہ اس جگہ کو عیون موسیٰ کہتے ہیں‘ جبل نیبو پارکنگ سے فاصلے پر تھی‘ ہم ٹکٹ لے کر چوٹی پر پہنچ گئے‘ وہاں پر دو جگہیں اہم ہیں‘ ایک وہ مقام جہاں سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو ارض مقدس دکھائی اور دوسری وہ جہاں یہودیوں اور عیسائیوں کی مشترکہ عبادت گاہ ہے‘ مقام موسیٰ پہاڑی کے کنارے پر تھا‘ وہاں لوہے کا سیاہ رنگ کا ایک طویل ستون نصب ہے‘ ستون سے اژدھا لٹک رہا ہے۔یہ حضرت موسیٰ ؑ کے عصا کا ماڈل ہے‘حضرت موسیٰ ؑ یہودیوں کے ساتھ صحرانوردی کے بعد جب جبل نیبو پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر انھیں فلسطین دکھایاتھا‘عصا موسیٰ ؑ کے ساتھ لوہے کی چھ سیڑھیاں ہیں‘ سیڑھیوں کے ساتھ فصیل ہے اور فصیل کے نیچے گہرائی میں تاحد نظر وسیع وادی ہے‘ وادی کے آخر میں فلسطین دکھائی دے رہا تھا‘ حضرت موسیٰ ؑ اپنی قوم کو فلسطین نہیں پہنچا سکے‘ آپ ؑ کا انتقال ہو گیا‘ آپ ؑ کو وادی میں کسی جگہ دفن کر دیا گیا‘ وہ جگہ کہاں ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا‘ آپ ؑ کے بعد آپ ؑ کے بھانجے حضرت یوشعؑ بن نون کو نبوت ملی اور وہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر سات سال بعد فلسطین پہنچے‘ یہودیوں نے جبل نیبو پر مقام موسیٰ پر ٹیمپل بنا دیا‘ یہ ٹیمپل بعد ازاں رومیوں اور عیسائیوں کے استعمال میں بھی رہا اور یہاں مسلمانوں نے بھی مسجد بنادی‘ جیل نیبو پر تینوں مذاہب کا اثر موجود تھا‘
آثار قدیمہ کا چھوٹا سا عجائب گھر بھی تھا جس میں علاقے سے نکلنے والی قدیم اشیاء‘ زیورات اور برتن رکھے تھے‘ ہم نے عصا موسیٰ ؑ کے پاس کھڑے ہو کر فلسطین کی طرف منہ کیا‘ دعا کی اور آگے روانہ ہو گئے۔ہماری اگلی منزل حضرت یحییٰ ؑ کی عبادت گاہ تھی‘ جبل نیبو سے آدھ گھنٹے کی ڈرائیو پر وہ مقام تھا جہاں حضرت یحییٰ ؑ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو بپتسمہ دیا تھا‘ یہ عبادت گاہ دریائے اردن کے کنارے پر واقع ہے‘ حضرت یحییٰ ؑ حضرت ذکریا ؑ کے صاحبزادے تھے اور حضرت ذکریا ؑ حضرت مریم ؑ کے سگے خالو تھے یوں حضرت یحییٰ ؑ حضرت عیسیٰ ؑ کے کزن تھے‘
یہ دریائے اردن کے کنارے رہتے تھے‘ حضرت عیسیٰ ؑ ان کے پاس تشریف لائے اور آپ ؑ نے دریائے اردن کے پانی سے انھیں غسل دیا‘ یہ غسل بپتسمہ کہلاتا ہے‘حضرت عیسیٰ ؑ کے بپتسمہ کے بعد دریائے اردن کا پانی ہولی واٹر (مقدس پانی) اور بپتسمہ عیسائیت کا بنیادی رکن بن گیا‘ عیسائیوں کے لیے دریائے اردن کا پانی آب زم زم کی حیثیت رکھتا ہے‘ یہ لوگ یہاں سے پانی بوتلوں میں بھر کر لے جاتے ہیں‘ اس میں عام پانی ملاتے ہیں اور یہ پانی چرچ میں رکھ دیتے ہیں۔لوگ اس پانی میں انگلیاں ڈبو کر ماتھے اور منہ پر رگڑتے ہیں‘ حضرت یحییٰ ؑ کی شہادت کا واقعہ بہت افسوس ناک تھا‘
دمشق کا بادشاہ ہیرودس اپنی سوتیلی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا تھا‘ حضرت یحییٰ ؑ نے اجازت دینے سے انکار کر دیا لیکن بادشاہ نے اس کے باوجود شادی کر لی‘ لڑکی نے حق مہر میں حضرت یحییٰ کا سر مانگ لیا‘ بادشاہ نے حکم دیا اور اردن کے گورنر نے آپؑ کو شہید کر کے سر دمشق بھجوا دیا‘ آپ ؑ کے بدن کو اردن کے گاؤں مکاور (Mukawir) میں دفن کر دیا گیا یوں آپ کے دنیا میں دو مزارات ہیں‘ مکاور اردن میں آپ کا جسم مدفون ہے اور دمشق کی جامع امیہ میں آپ کا سر مبارک‘ حضرت یحییٰ ؑ کا سر مبارک مسجد کی تعمیر کے دوران غار سے دریافت ہوا تھا‘ اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے سر اسی جگہ دفن کیا اوراوپر مزار بنا دیا‘یہ مزار جامع امیہ کے مرکزی ہال کے اندر ہے‘ مجھے اس پر حاضر ہونے کی سعادت بھی نصیب ہوچکی ہے۔