اسلام آباد(نیوز ڈیسک) امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر اور میمو گیٹ سکینڈل کے مرکزی کر دار حسین حقانی نے کہا ہے کہ پاکستان کو اپنے حجم سے 6گنا بڑے بھارت سے مقابلہ کرنے کی بجائے مذہبی شدت پسندی و دہشت گردی سے نمٹے اور اقتصادی اصلاحات پر عملدر آمد کرنا چاہیے، چین پاکستان کو خطے میں بھارت کے مقابلے میں دوسری ڈیٹرنس کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش رکھتاہے ، چین کو معلوم ہونا چاہئے کہ رقم ہمیشہ پاکستان کی حمایت حاصل کرنے یا پاکستان کی پالیسیوں میں تبدیلی کی حوصلہ افزائی کاذریعہ نہیں بن سکتی ، چین اپنامقام وہیں دیکھے جو آج پاکستان کے محسن امریکہ کا ہے ،1950سے اب تک 40ارب ڈالر کی امداد دینے کے باوجود صرف14فیصد پاکستانی امریکہ کے حامی ہیں، پاکستان کا پاکستانی اشرافیہ دنیا کے کم ترین جی ڈی پی پر قابو پانے کےلئے ٹیکس اداکرنے چاہئیں۔ امریکی اخبار وال سٹریٹ آف جرنل میں چین کی جانب سے پاکستان میں 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے نئے منصوبوں بارے اپنے مضمون میں حسین حقانی نے کہا کہ چینی صدر کے دورہ کے دوران جن 46ارب ڈالر کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے اس سے پاکستان کو آگے بڑھنے میں مدد مل سکتی ہے، تاہم امریکہ نے چین کی جانب سے پاکستان کی مدد پر معمولی خدمات کا اظہار کیا ہے تاہم وہ یہ بھی چاہے گا کہ وہ پاکستان پر اپنا اثر ورسوخ استعمال کرے، وہ اپنی سر زمین کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنانے کا اپنا کر دار کم کرے، چین کو سنکیانگ میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد گروپ پر شدید خدشات تھے اور وہ چاہتا ہے کہ پاکستان اپنی سر زمین پر کام کرنے والے شدت پسند گروپوں کو ختم کرنے تاہم چین کی اقتصادی یقین دہانیاں اسلام آباد کے بھارت کے خلاف اسٹریٹیجک طور پر آف بیلٹس اعداد و شمار کو مزید مضبوط کرے گا۔ حسین حقانی نے لکھا کہ پاکستان نے 1947ءمیں آزادی کے فوری بعد بھارت کے مقابلے میں اسلحہ اور معاشی معاونت کے حصول کےلئے امریکہ سے رجوع کیا تھا، اب پاکستانی رہنما چین کو اپنے روایتی حریف ملک کے مقابلے میں ایک بڑے حامی کے طور پر دیکھ رہے ہیں، امریکہ نے بھارت کے خلاف پاکستان کی حمایت اور اسے مطلوبہ ہتھیار فروخت کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس سے پاکستان مایوس ہو گیا، اب چین پاکستان کی امیدوں کا محور ہے۔ حسین حقانی نے کہا کہ چین پاکستان کی فوجی حمایت کر کے اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ بھارت کی فوج چین کےلئے چیلنج نہ بنے۔چین ایشیامیں بڑی مارکیٹ رہا ہے اور چین پاکستان کو بھارت کے خلاف ثانوی ڈیٹرنس کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش کے باوجود نئی دہلی سے اپنے تعلقات ختم نہیں کرنا چاہتا۔ چین کے ساتھ بھارت کی تجارت 2013 میں 65 ارب ڈالر تھی جو کہ پاکستان کے ساتھ تجارت سے چھ گنا زائد ہے۔ پاکستان چین کی طرف سے آنے والے موجودہ اربوں ڈالر کی سر مایہ کاری سے فائدہ اٹھا سکتا ہے تاہم سابقہ اعلانات سے فائدہ اٹھا نہیں سکتا۔ سابق سفیر نے کہا کہ چین کی پاکستان میں سر مایہ کاری اور دوسرے ذرائع سے سر مایہ کاری آسانی کے ساتھ نتائج حاصل کر سکتی ہے اور اس کے اندرونی معاملات کو ٹھیک کر سکتی ہے، تاہم وہ اپنے حجم سے6گنابڑے بھارت کے مقابلے کے قابل نہیں بنا سکی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو مذہبی شدت پسندی سے نمٹنا اور دہشت گردی کو ختم کرنا چاہیے اور جس کے بارے میں پاکستانی حکمران بات کرتے ہیں ان اصلاحات کو نافذ کرنا چاہیے، پاکستان کی اشرافیہ کو ٹیکس ادا کرنے چاہیے۔ پاکستان اپنے دفاعی بجٹ کو معقول بنائے اور افرادی قوت کی مہارت کی کمی پر قابو پانے کےلئے تعلیم پر زیادہ سرمایہ کاری کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ چینی رقم پاکستانی قیادت کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کر دے گی کہ چین ان کا فوجی اور معاشی سر پرست بن جائے گا، تاہم چینی صدر شی چن پنگ نہیں چاہیں گے کہ ایسا ہو وہ اس کی جگہ اصلاحات پر زور دیں گے، انہیں یہ نہیں بھول جانا چاہیے کہ رقم ہمیشہ پاکستان کی حمایت حاصل نہیں کر سکتی یا پاکستان کی پالیسیوں میں تبدیلی کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے بلکہ چینی کمپنیوں کے پاکستان میں زیادہ کام کرنے سے چین کی پاکستان میں مقبولیت کم ہو جائے گی۔ حسین حقانی نے کہا کہ چین کو اپنے آپ کو واں دیکھنا چاہیے جہاں پاکستان کا سابق محسن امریکہ کھڑا ہے، پاکستان کو 1950سے اب تک 40ارب ڈالر کی امداد دینے کے باوجود صرف14فیصد پاکستانی امریکہ کو پسند کرتے ہیں۔