لاہور( این این آئی)پنجاب حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کے لارجر بنچ کے حکم پرسانحہ ماڈل ٹاؤن پر جسٹس باقر نجفی انکوائری ٹربیونل کی رپورٹ پبلک کردی ۔132صفحات پر مشتمل ٹربیونل کی رپورٹ ڈائریکٹوریٹ جنرل پبلک ریلیشنز پنجاب کی وی سائٹ پر جاری کی گئی ہے ۔رپورٹ کے نکات میں کہا گیا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں حکومت پنجاب کے معصوم ہونے پر شبہ ہے،حکومت پنجاب کی سرد مہری اور لاپروائی نظر آتی ہے،سانحہ سے پہلے آئی جی اورڈی سی او بدلنے سے شبہ ظاہر ہوتا ہے ،ٹریبونل کے سامنے پولیس نے یہ چھپانے کی کوشش کی کہ فائرنگ کا حکم کس نے دیا،
ٹربیونل کوسانحہ کی تہہ تک پہنچنے کے لیے مکمل اختیارت نہیں دئیے گئے تھے،ٹریبونل کو مکمل اختیار نہ دے کر سچ کو چھپایا گیا۔جسٹس باقر نجفی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمشنر لاہور نے منہاج القرآن کے ارد گرد تجاوزات کی رپورٹ پیش کی، کمشنر لاہور نے بیریئر لگانے کے غیر قانونی اقدامات کی رپورٹ پیش کی، اجلاس میں تجاوزات ہٹانے کے لیے فوری کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق طاہرالقادری نے23 جون 2014 کو راولپنڈی تا لاہور لانگ مارچ کا کہا جبکہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ طاہرالقادری کو مقاصد حاصل کرنے نہیں دیں گے۔جسٹس باقر نجفی رپورٹ میں کہا گیا کہ اس اجلاس میں وزیراعلی پنجاب کی جگہ ڈاکٹر توقیر شاہ شریک ہوئے، اجلاس میں ڈاکٹر توقیر شاہ نے بیرئیر ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی، آپریشن کے فیصلے پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے قانونی رائے نہیں لی گئی۔حکومت پنجاب کے تمام ارباب اختیار کے معصوم ہونے پر قوی شبہ ہے،پولیس ، حکومتی مشینری نے بغیر کسی خوف کے آپریشن کیا۔ رپورٹ کے نکات میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس افسران کے حلف نامے عکاسی کرتے ہیں وزیراعلی نے پولیس ہٹانے کا حکم دیا۔انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹ کے مطابق زخمی اہلکاروں کی اطلاع ملنے پر پولیس مشتعل ہوئی۔ادارے کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ منہاج القرآن کے گارڈنے چھت سے فائرنگ کی جس سے دوپولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
آئی ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق طاہرالقادری کے گھرکی چھت سے گارڈزکی فائرنگ پروثو ق سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ٹربیونل کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ راناثنااللہ اور سیکرٹری داخلہ نے وزیراعلی کے کسی حکم کا ذکر نہیں کیا۔ سانحہ میں کہیں بھی پولیس کی کمانڈ نظر نہیں آئی۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آپریشن کی صبح9بجکر20منٹ پر پولیس نے طاہر القادری کی رہائش گاہ کے مرکزی دروازے کی جانب پیشقدمی کی ،
ایس پی سید عبد الرحیم شیرازی کی قیادت میں پولیس کی نفری طاہر القادری کی رہائش گاہ کے دروازے تک پہنچ گئی جہاں انہیں خواتین کارکنان کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، خواتین کارکنان نے ایس پی شیرازی کو گریبان سے پکڑ لیا، اسی دوران پولیس نے براہ راست فائرنگ کی ، فائرنگ کے دوران مشاہد ہ کیا گیا کہ پولیس اہلکاروں نے خواتین سے کہا کہ وہ علی اور حسین کو بلائیں تاکہ وہ ان کو بچانے آئیں جبکہ خواتین کو نعرہ تکبیر اور نعرہ حیدری بلند کرتے ہوئے بھی سنا گیا۔ آئی ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق پولیس فائرنگ سے 10 لوگ ہلاک،70 زخمی ہوئے،50 کو فائر لگے۔
آئی ایس آئی کے سب انسپکٹرنے سیکرٹری ٹوسی ایم کوفون کیاتوجواب ملاوہ کچھ نہیں جانتے۔ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایک سب انسپکٹرنے تین ہوائی فائرکیے جس سے کارکنوں میں بھگدڑمچ گئی،سیکرٹری ٹو سی ایم کا کہنا تھا طبیعت ٹھیک نہیں آج دفتر بھی نہیں جائینگے،آئی ایس آئی کے سب انسپکٹرنے سیکرٹری ٹوسی ایم کوفون کیاتوجواب ملاوہ کچھ نہیں جانتے۔ آئی ایس آئی کی ٹربیونل کو رپورٹ کے مطابق پولیس پہنچی تومنہاج القرآن کے کارکنوں نے پتھراؤ کیا۔پولیس کو17جون کی رات منہاج القرآن کے بیرئیرہٹانے کاسخت حکم ملا۔ٹربیونل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اہلکاروں کا رویہ مظاہرین کی نسبت زیادہ جارحانہ تھا۔ افسران نے دانستہ طور پر معلومات چھپائیں۔ ٹربیونل کے مطابق انسان جھوٹ بول سکتا ہے لیکن حالات نہیں، حالات بتاتے ہیں کہ پولیس والوں نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ پولیس اہلکاروں نے وہی کیا جس کے لیے بھیجا گیا تھا۔
عوامی تحریک کے تین سو کے قریب کارکنوں نے اہلکاروں اور ٹی ایم او سٹاف پر پتھرا کیا اور فائرنگ کی۔ردعمل میں پولیس نے بھی گولیاں چلا دیں جس سے کئی کارکن جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ پورے سانحے میں پولیس کو کون کمانڈ کر رہا تھا؟ یہ معلوم ہی نہیں ہوسکا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئی جی نے بتایا کہ انہوں نے ساڑھے گیارہ بجے چارج سنبھالا، انہیں واقعہ کی خبر بارہ بجے ملی۔ اسسٹنٹ کمشنر نے تھانہ ماڈل ٹاؤن کے ایس ایچ او کو مزاحمت کا بتا دیا تھا۔ پولیس افسران نے دانستہ طورپر ٹربیونل سے معلومات چھپائیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سب ایک دوسرے کو بچانے میں لگے ہوئے تھے۔ایک نجی ٹی وی کے مطابق ٹربیونل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ رانا ثنا اللہ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے دعوے کی تصدیق نہیں کی ۔
وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر نے بھی دعوے کی تصدیق نہیں کی۔سانحہ ماڈل ٹاؤن پر کسی پولیس اہلکار نے ایک لفظ نہیں بتایا ۔ تمام پولیس افسران انکوائری میں ایک دوسرے کو بچاتے رہے ۔صاف نظر آتاہے کہ تمام اہلکار ٹریبونل سے تعاون نہ کرنے پر متفق ہیں۔ حقائق چھپانے پرپولیس کارویہ سچائی کودفن کرنے کے مترادف ہے۔سانحہ سے پہلے خان بیگ کو آئی جی کے عہدے سے تبدیل کیا گیا جبکہ سانحہ سے قبل ڈی سی او لاہور کو بھی عہدے سے ہٹایا گیا ۔
رانا ثنا اللہ ، ڈاکٹر توقیر اور پولیس افسران سانحہ ماڈل ٹاؤن میں معصوم نہیں۔ پولیس کی خاموشی سے لگ رہا تھا کہ انہیں صرف حکم پر عمل کرنا تھا۔ عدالت کے حکم پر عملدرآمد ہوتا تو خون خرابہ روکا جا سکتا تھا۔ رپورٹ پڑھنے والے فیصلہ کر سکتے ہیں کہ سانحہ کی ذمہ داری کس پر ہے ۔ ٹربیونل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ رانا ثنااللہ کی سربراہی میں اجلاس منعقد ہوا جس میں چیف سیکرٹری ، وزیر اعلی کے سیکرٹری ، سیکرٹری داخلہ اور کمشنر لاہور سمیت دیگر اعلی حکام نے شرکت کی ، اس اجلاس میں طاہرالقادری کے 23جون 2014کو راولپنڈی تا لاہور لانگ مارچ کے حوالے سے غور کیا ،
اجلاس کے دوران رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ طاہر القادری کو مقاصد حاصل کرنے نہیں دیں گے، سانحہ ماڈل ٹاؤن آپریشن کے فیصلے پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے قانونی رائے نہیں لی گئی ۔ قانون کے مطابق کمیشن کوپولیس کے ذریعے تفتیش کرانے کاختیارحاصل تھامگر اس کے باوجود ٹربیونل کوکیس کی تہہ تک جانے کے لئے مکمل اختیارات نہیں دیئے گئے۔دوران تحقیقات راناثنااللہ، ڈاکٹرتوقیراورشہبازشریف کے فون کاڈیٹاآئی ایس آئی نے د یا۔ اسپیشل برانچ،آئی بی اورآئی ایس آئی نے الگ الگ رپورٹ کمیشن کودی ۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے تحقیقات کے لئے ٹربیونل اپنے رجسٹرارسمیت منہاج القرآن گیااور 45 منٹ تک ڈیٹاکامعائنہ کیا۔