اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پبلک اکاؤنٹس کی ذیلی کمیٹی میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ نان صارفین کی جانب سے گیس چوری کی وجہ سے قومی خزانے کو 8ارب88کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچا ہے، ایس این جی پی ایل حکام نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں لوگ کہتے ہیں کہ گیس نکلتی یہاں ہے تو ہم کیوں بل دیں؟ آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ سینجوڑو منصوبے میں6کنویں جن کی کل لاگت 25کروڑ روپے تھی خلاف ضابطہ اس کا ٹھیکہ 95کروڑ روپے سے زائد کا دیا گیا،
چھ کنوؤں کے ٹینڈرز کا سکوپ تبدیل کیا گیا، آڈٹ حکام نے ٹینڈرز کی کاپی کمیٹی کو دکھا دی، کمیٹی نے معاملے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب 25کروڑ روپے بعد والے ٹھیکے سے بھی کم ہو گئے، اس کا مطلب ہے کہ پہلی اور دوسری لاگت دونوں غلط کی گئیں اس میں تو لکھا ہے کہ سکوپ تبدیل کیا گیا ہے، اگر 25سے 95کروڑ روپے تک لاگت پہنچ چکی تھی تو نئے ٹینڈرز کو دوبارہ مشتہر کیا جاتا کراچی پورٹ ٹرسٹ(کے پی ٹی) کے واپڈا، آئی ایس آئی، آئی بی، ایم آئی، ایف آئی اے، اینٹی نارکوٹیکس فورس ودیگرمحکموں کے ذمہ مجموعی طور پر ایک ارب 28 کروڑ روپے واجب الادا ہیں،ایک ارب روپے تو صرف واپڈا کے ذمہ ہیں، سٹوریج چارجز کی مد میں یہ رقم واجب الادا ہے، یہ سرکاری محکمے اور ایجنسیاں 1999 سے نادہندہ ہیں۔کمیٹی نے جعلی ڈگریوں پر بھرتی ہونے والوں کے خلاف کاروائی نہ کرنے پر کہا کہ او جی ڈی سی ایل نے اس پر کاروائی کیوں نہیں کی، یہ تو صریحاً جرم ہے۔۔ پبلک اکاؤنٹس کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس گذشتہ روز کنونئیر کمیٹی شفقت محمود کی زیر صدارت ہوا۔جس میں وزارت پورٹ اینڈ شپنگ اور پٹرولیم ڈویژن کے مالی سال 2015-16 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا اجلاس میں آڈٹ حکام نے بتایاکہ، آڈٹ حکام نے وازرت پورٹ اینڈ شپنگ میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی، آڈٹ حکام نے بتایاکہ مختلف سرکاری محکموں اور ایجنسیوں سے
ایک ارب 28 کروڑروپے کی ریکوری نہیں کی گئی ہے یہ 45 محکمے اور ایجنسیاں ہیں جن کے ذمہ ایک ارب28 کروڑ روپے سے زائد واجب الادا ہیں ایک ارب روپے تو صرف واپڈا کے ذمہ ہیں ۔ آڈٹ حکام نے بتایاکہ سٹوریج چارجز کی مد میں یہ رقم واجب الادا ہے آڈٹ حکام نے بتایاکہ یہ سرکاری محکمے اور ایجنسیاں 1999 سے نادہندہ ہیں ، آدٹ رپورٹ کے مطابق وزارت خوراک کے ذمہ 85 لاکھ، پاکستان ریلوے کے ذمہ 5لاکھ۔ نیول ڈاک کے زمہ 91 ہزار، اینٹی نارکوٹیکس فورس کے ذمہ 23ہزار، ایف آئی اے کے ذمہ 2لاکھ 83ہزار،کراچی ڈاک لیبر بورڈ کے زمہ 30 ہزار، ملٹری اسٹیٹ آفسر کے زمہ 5 لاکھ 22 ہزار، نیشنل لاجسٹک سیل کے زمہ 22ہزار، ریجنل میٹرلوجیکل کے زمہ 11 ہزار، آئی بی کے زمہ 15ہزار، آئی ایس آئی کے زمہ 1 لاکھ93 ہزار۔
ایم آئی کے زمہ 1 لاکھ34ہزار اور واپڈا کے زمہ ایک ارب روپے سے زائد واجب الادا ہیں۔کمیٹی نے معاملہ موخر کردیا۔ اجلاس میں�آڈٹ حکام نے بتایاکہ کے پی ٹی نے میسز چائنہ ہاربر انجنئیرنگ کمپنی لمٹیڈ اور میسز پمکون سے ایک ارب 42کروڑ روپے کا ود ہولڈنگ ٹیکس وصول نہیں کیا یہ ٹیکس کی رقم 2011 سے واجب الادا ہے ۔ جس پر کے پی ٹی کے حکام نے بتایاکہ ایف بی آر کی جانب سے ودہولڈنگ ٹیکس کا لیٹر 2015میں د یا گیا تھا جبکہ یہ معاملہ 2011 کا ہے جبکہ ایف بی آر نے اس بارے ہمیں استشنی کا لیٹر دیا بعد میں وہ لیٹر بھی خارج کردیا گیا۔ کنونئیر کمیٹی میاں عبدالمنان نیکہاکہ ایف بی آر کا ود ہولڈنگ ٹیکس روکا نہیں جاسکتاآپ ایف بی آرکے پیسے واپس کریں ، کنونئیر کمیٹی نے ایف بی آر سے معاملے کی وضاحت اور تفصیلات طلب کرنے کی ہدایت کردی۔
کمیٹی نے وزارت پیٹرولیم ڈویژن کے آڈٹ اعتراضپر کہا کہ قوم کا 5کروڑ روپیہ ضائع کر دیا، اس میں پورا محکمہ ملوث ہے، یہ تو آسان طریقہ ہے کہ قوم کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا دو اور ریٹائر ہو جاؤ، یہ مکمل طور پر غیر تسلی بخش ہے۔ کمیٹی رکن میاں عبدالمنان نے کہا کہ پانچ کروڑ کا نقصان ہوا ہے اور ذمہ دار کے صرف ایکریمنٹ روکنا کافی نہیں ہے، چھوٹے ملازم کو قربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے اور بڑے کو بچا لیا جاتا ہے۔ کمیٹی کنوینئر شفقت محمود نے کہا کہ 148ملین ڈالر کا معاہدہ تھا،5 سے 10کروڑ روپے تو اداروں کیلئے چھوٹی رقم ہوتی ہے، بڈ بانڈ ان کیش کیوں نہیں کروایا گیا، نقصان صرف او جی ڈی سی ایل کو نہیں ہوا بلکہ قوم کا نقصان ہے۔
او جی ڈی سی ایل حکام نے کہا کہ بڈ بانڈ کی رقم چھوٹی تھی کچھ لوگوں کو سزا دی گئی ہے۔ وزارت کے سیکرٹری سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ کمپنی کی ذمہ داری تھی کہ بڈ بانڈ کو ان کیش کیا جاتا، اس پر تحقیقات ہوں گی، جس پر کمیٹی نے کہا کہ تحقیقات ہو گئی ہیں مگر جو لوگ اعلیٰ سطح پر ملوث ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی کی جاتی۔ او جی ڈی سی ایل حکام نے بتایا کہ 148ملین ڈالر پر منصوبہ دوبارہ دوسری کمپنی کو دیا گیا۔ کمیٹی نے وزارت کو ذمہ داروں کا تعین کر کے سزا دینے کی ہدایت کر دی۔ آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ سینجوڑو منصوبے میں6کنویں جن کی کل لاگت 25کروڑ روپے تھی خلاف ضابطہ اس کا ٹھیکہ 95کروڑ روپے سے زائد کا دیا گیا،
یہ منصوبہ 2013-14کا تھا۔ کمیٹی رکن میاں عبدالمنان نے کہا کہ 25کروڑ کا منصوبہ تھا کیسے پہنچا۔او جی ڈی سی ایل حکام نے بتایا کہ یہ کیس ایف آئی اے کے پاس ہے مگر اب تک 70کروڑ روپے اس میں دیئے جا چکے ہیں، اب یہ منصوبہ 70کروڑ کا ہے، جس پر کمیٹی نے کہا کہ اب 25کروڑ روپے بعد والے ٹھیکے سے بھی کم ہو گئے، اس کا مطلب ہے کہ پہلی اور دوسری لاگت دونوں غلط کی گئیں۔کمیٹی رکن میاں عبدالمنان نے کہا کہ یہ تو جرم کیا گیا، پہلے جس نے کوٹیشن دی اسے کیوں نہیں دیا گیا۔ آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ چھ کنوؤں کے ٹینڈرز کا سکوپ تبدیل کیا گیا، آڈٹ حکام نے ٹینڈرز کی کاپی کمیٹی کو دکھا دی، جس پر کمیٹی کنوینئر شفقت محمود نے کہا کہ اس میں تو لکھا ہے کہ سکوپ تبدیل کیا گیا ہے،
اگر 25سے 95کروڑ روپے تک لاگت پہنچ چکی تھی تو نئے ٹینڈرز کو دوبارہ مشتہر کیا جاتا۔ سیکرٹری پٹرولیم سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ محکمانہ کمیٹی میں آڈٹ کے پانچ نکات کا جواب او جی ڈی سی ایل نے نہیں دیا، آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ جعلی ڈگری پر ملازمت پر تقرری کی گئی،جس کی وجہ سے 17کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا،42افراد کو جعلی ڈگریوں پر ملازمت دی گئی، جس پر سیکرٹری پٹرولیم نے کہا کہ 34افراد کو نوکری سے معطل کر دیا ہے، جس پر کمیٹی نے کہا کہ او جی ڈی سی ایل نے اس پر کیا کاروائی کی، یہ تو صریحاً جرم ہے، جس پر او جی ڈی سی ایل حکام نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی واضح پالیسی نہیں تھی کہ ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے، بعض افراد نے اس پر صرف تنخواہ بڑھانے کیلئے فرسٹ ڈویژن لکھ دی اور حقیقت میں اس کی فرسٹ ڈویژن نہیں تھی،
33افراد جعلی ڈگری کے حامل ہیں اور کورٹ میں ان کا کیس چل رہا ہے، کمیٹ ینے جعلی ڈگری پر بھرتی پر نہایت تشویش کا اظہار کیا، وزارت کی تحقیقات پر دو سال لگ جاتے ہیں، فیصلہ نہیں ہوتا ہے، جس نے جھوٹ بولا فراڈ کیا اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ او جی ڈی سی ایل کے جعلی ڈگری کے حامل لوگ این آئی آر سی میں ہیں۔ او جی ڈی سی ایل حکام نے بتایا کہ افسر سطح کے لوگ نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جن کا کیس عدالت میں ہے۔ آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ ملازمت پر غیر متعلقہ شخص کو ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی پوسٹ پر لگایا گیا اور اسے ماہانہ 8لاکھ روپے تنخواہ دی گئی، جس پر او جی ڈی سی ایل حکام نے بتایا کہ وہ شخص ہارورڈ یونیورسٹی سے پڑھا ہوا تھا۔ کمیٹی نے معاملہ نمٹا دیا۔ کمیٹی رکن عبدالرشید گوڈیل نے کہا کہ ہمیں فخر نہیں ہونا چاہیے کہ ہارورڈ سے پڑھا ہے اس کے پاس کے پاس پیسے ہوں گے،
غریب کے بچے وہاں نہیں جا سکتے، وہ یہیں پڑھتے ہیں۔ آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ لوگ دستاویزات ریٹائرڈ آرمی افسر کو جی ایم کمیونیکیشن تعینات کیا گیا، جس کو ماہانہ بنیادوں پر تین لاکھ روپے کی تنخواہ دی جاتی رہی ہے، کمیٹی نے اس پر تحقیقات کی ہدایت جاری کر دی۔ او جی ڈی سی ایل حکام نے بتایا کہ آرمی کو بھی اس بارے میں بتایا گیا کہ یہ شخص ٹھیک نہیں ہے اسے نکال دیں، تو اس شخص کو نکال دیا گیا۔ آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ صارفین جن کے کنکشن نہیں ہیں،ان سے 38ارب روپے سے زائد کے واجبات وصول نہیں کئے گئے، انڈسٹریل اور کمرشل سیکٹر کے ذمہ یہ واجبات تھے۔ ایس این جی پی ایل حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ طارق عزیز نامی شخص کے خلاف کاروائی کی گئی ہے اور اس کی ضمانت بھی اب تک نہیں ہو رہی ہے،
اس کے ذمہ ایک کروڑ روپے کے واجبات تھے، یہ ہمارے سٹاف کے خلاف کاؤنٹر ایف آئی آر کاٹ دیتے ہیں،اس وقت گیس چور مافیا ہے، دیپالپور میں ایک اہلکار نے کنکشن کا ٹا دوسرے دن اس شخص نے دن دیہاڑے اسے گولی مار دی گئی، مافیا کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں،کمیٹی کنوینئر شفقت محمود نے کہا کہ ہندوستان میں گھریلو صارفین کو پائپ گیس نہیں دی جاتی ہے۔ آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ نان صارفین نے 8ارب88کروڑ روپے سے زائد کی گیس چوری کی گئی جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا ہے، ایس این جی پی ایل حکام نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں ایسے مسائل زیادہ ہیں جہاں لوگ کہتے ہیں کہ گیس نکلتی یہاں ہے تو ہم کیوں بل دیں؟۔ وزارت میری ٹائم کے آڈٹ اعتراضات میں آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ پورٹ قاسم اتھارٹی نے 25لاکھ فی ایکڑ پہ زمین دی گئی جبکہ لینڈ الاٹمنٹ پالیسی 2008کے تحت 50لاکھ فی ایکڑ بنتی ہے، 5کمپنیوں کو انڈسٹریل پلاٹ الاٹ کئے گئے،365ایکڑ اراضی میں اسی وجہ سے 91کروڑ سے زائد کا نقصان ہوا۔ میں عبدالمنان نے کہا کہ ٹیکسٹائل سٹی منصوبہ تو ختم ہو گیا ہے، جس پر پورٹ قائم اتھارٹی کے حکام نے بتایا کہ یہ منصوبہ ختم کر دیا گیا ہے اس پر کام نہیں ہو سکا، ٹیکسٹائل سٹی لمیٹڈ نے وزیراعظم کو لکھا جس پر اسے ختم کر دیا گیا ہے، اس پر دو ارب سے زائد کا آڈٹ اسٹینڈنٹ رقم نیشنل بینک کو دینے ہیں، اب یہ زمین پورٹ قاسم کی ہے۔