اسلام آباد (این این آئی)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ میرے خلاف سیاسی بنیادوں پر کیس بنا ے گئے ، پر امن احتجاج پردہشت گردی کاکیس بنا دیا ٗمنی لانڈرنگ کرنے والا ملک کا وزیر خزانہ کیسے ہوسکتا ہے ٗاسحاق ڈار کو پہلے ہی دن مستعفی ہو جانا چاہیے تھا ۔ منگل کو انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے مختصر بات چیت میں عمران خان نے کہا کہ ملک میں شفاف انتخابات کے لیے پرامن احتجاج کر رہے تھے، ان کے خلاف سیاسی بنیادوں پر کیس بنایا گیا،
پر امن احتجاج کے اوپردہشت گردی کاکیس بنا دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ لوگ مجھ پر دہشت گردی کے کیس کرسکتے ہیں تو کسی پر بھی کرسکتے ہیں، یہ لوگ دہشت گردی کے نام پر کسی کے بھی وارنٹ نکال سکتے ہیں، یہ ایک سیاسی کیس تھا۔چیرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ منی لانڈرنگ ہے، جس دن اسحاق ڈار کا نام نیب میں آیا انہیں اسی دن مستعفی ہونا چاہیے تھا، ان پر اربوں کی کرپشن کا کیس ہے، منی لانڈرنگ کرنے والا ملک کا وزیر خزانہ کیسے ہوسکتا ہے۔بابر اعوان نے کہاکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی آواز دبانے کے لیے سیکڑوں کارکنان پر پرچے درج کیے گئے، جو لوگ ان مظاہروں کے دوران ریاستی تشدد سے مارے گئے ان کا کوئی پرچہ درج نہیں ہوا جس طرح ماڈل ٹان کا کوئی پرچہ درج نہیں ہوا۔بابر اعوان نے کہا کہ یہ جمہوری احتجاج تھا، جس کی قیادت عمران خان نے کی، وہ کسی دفعہ کے تحت قابل دست اندازی جرم نہیں تھے اور پولیس کا اس سے کوئی تعلق نہیں، اس وقت نوازشریف ریاستی طاقت استعمال کررہے تھے۔انہوں نے کہا کہ تمام مقدمات سیاسی ہیں جو ناکام ہوں گے اور ہم ان مقدمات میں سرخرو ہوں گے، اب کوئی عمران خان کا راستہ نہیں روک سکتا۔قبل ازیں سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور سیکرٹری جنرل جہانگیرترین کی نااہلی کے حوالے سے کیسز کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ منگل کو سپریم کورٹ نے عمران خان نا اہلی کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ ایسی توقع نہ رکھیں کہ
فیصلہ کل آجائے گا۔ کیس کے دوران اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ دیکھنا ہے کہ کیا عمران خان بے ایمان آدمی ہیں کہ نہیں۔سپریم کورٹ میں عمران خان ناہلی کیس میں وکیل نعیم بخاری اور وکیل اکرم شیخ نے دلائل مکمل کیے ٗعمران خان وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ ہمارے کسی جواب میں بھی تضاد نہیں، عمران نے ایمنسٹی اسکیم کے بعد لندن فلیٹ کو ڈکلیئر کیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثارنے ریمارکس میں کہا کہ آپ کا کہنا ہے کہ عمران نے لندن فلیٹ کو ڈکلیئر کیا لیکن آف شور کمپنی کو نہیں کیا۔
نعیم بخاری نے کہا کہ عمران خان نے کچھ چھپایا ہوتا توریٹرننگ آفیسر اس کے دستاویزست مسترد کرسکتا تھا،عمران خان کے ریٹرن پر الیکشن کمیشن نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت ریٹرننگ افسرنے معاملہ نہیں دیکھا، تو کیاعدالت اب کاغذات نامزدگی کونہیں دیکھ سکتی۔وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ کاغذات میں اثاثے یاغلط بیانی کی بات 2002 کی ہے، 2002 کی غلط بیانی پر موجودہ الیکشن پر نااہلی مانگی گئی ہے ، عمران خان سے 2002 کے اثاثے بتاتے ہوئے غلطی ہوسکتی ہے
غلط بیانی نہیں۔جسٹس عمرعطاء بندیال نے اپنے ریمارکس دیئے کہ اثاثے چھپانے اور غلطی میں فرق ہے، عمران خان نے اپنا یورواکاؤنٹ ظاہر نہیں کیا جس پر وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ یہ اکاؤنٹ تب کھولاگیاجب وہ ایم این اے تھے، یہ اکاؤنٹ لندن فلیٹ کی عدالتی کارروائی کے دوران کھولاگیا، یورواکاؤنٹ کی رقم عمران خان پاکستان لائے، ایمانداری اور بے ایمانی میں عدالت نے فرق کرنا ہے۔وکیل اکرم شیخ نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا عدالت پاناما فیصلے کانظرثانی فیصلہ بھی دیکھ لے، نعیم بخاری کہتے ہیں کہ اثاثے نہ بتاناغلطی ہوسکتی ہے،
عمران خان نے جمائمہ خان کی بنی گالہ اراضی کاغذات میں بتائی، جمائمہ کے پاکستان کے باہرکے اثاثے نہیں بتائے گئے، نظرثانی کے فیصلے کے بعد کاغذات نامزدگی کے پیرامیٹرزسخت ہوچکے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ بتائیں کہ ماضی کی غلط بیانی کا موجودہ الیکشن پرکیسے اثرپڑسکتا ہے جس پروکیل اکرم شیخ نے کہا کہ جعلی ڈگری کے مقدمات میں عدالت ماضی کی غلط بیانی پرکامیاب امیدوارکا اگلا الیکشن اورانہیں نااہل کرچکی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کوشش ہے کہ آج ہرچیز ختم کردیں،
اگر کوئی چیز رہ جاتی ہے تو فریقین تحریری صورت میں دے سکتے ہیں۔وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ غلطی کو بے ایمانی پہلے ہی کئی فیصلوں میں قراردیا جاچکا ہے، پاناما کے فیصلے میں عدالت نے پورانے فیصلے کو اکٹھا کیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے اہلیہ کے اثاثے چھپانے کا ذکر دلائل میں نہیں کیا، کیا عدالت آرٹیکل 184/3 کے مقدمے میں اضافی دستاویرات پہ شواہد نہیں مانگ سکتی، دیکھنایہ ہے کہ دونوں جانب سے سچ کون بول رہاہے۔وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ این ایس ایل کے اکاؤنٹ میں ایک لاکھ پاونڈ رکھے گئے،
جولائی 2007 میں این ایس ایل اکاونٹ سے عمران خان کے اکاونٹ میں 20 ہزاریورو کی رقم آئی، مارچ 2008 میں اکاونٹ میں 22 ہزاریوروکی رقم آئی اور یہ رقوم 2012 میں کیش کرائی گئی، درخواست گزارکے مقدمے سے ہٹ کرعدالت نے سوالات پوچھے، جس کے لیے دستاویزات لائیں گئیں، جس پرچیف جسٹس نے استفسارکیا کہ اگرسماعت (آج) بدھ تک ملتوی کردیں تو جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ جوعدالت حکم دے اس کی پیروی کروں گاعدالت کوانکار نہیں کرسکتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت اس سارے عمل کی صرف نگرانی کر سکتی ہے کیونکہ سپریم کورٹ کا حکم آچکا ہے ٗ
رپورٹ تیار کرکے بتائیں کہ کیا اقدامات کیے گئے ہیں اور کس طرح عدالتی حکم پر عمل درآمد کیا جائے گا۔وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ عمران خان نے 18 سچ تحریری جوابات میں بیان دئیے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم تمام چیزوں کودیکھ رہے ہیں، آپ کے کہنے پربہت سی باتیں نوٹ کرچکے ہیں ، آپ نے جہاں تضاد کی نشاندہی کی ہم نے نوٹ کیا ۔ وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ میں عدالت کی معاونت کررہا ہوں، کیا بیان حلفی میں لکھے بیان کوری وزٹ کیا جاسکتا ہے، کاغذات نامزدگی میں ہر قسم کا قرض ظاہر کرنا ضروری ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کو وارنٹو کے درخواست میں دیکھنا ہے کہ کون غاصب ہے اوربے ایمانی کا تعین مواد سے ہونا ہے۔جہانگیر ترین نااہلی کیس میں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ٹرسٹ خود سے
ایک قانونی ادارہ ہے جس پر وکیل سکندر بشیر کا کہنا تھا کہ ٹرسٹ کی کوئی انکم نہیں ہے، جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ ٹرسٹ ڈیڈ میں کہاں لکھا ہے کہ جائیداد کو کرایہ پر نہیں دیا جاسکتا ٗچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جہانگیرترین کے تحریری جواب سے افسوس ہوا۔جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ جہانگیرترین کے پاس اختیار ہے کہ وہ انکم کسی کو دینے کی ہدایت دیں ٗکیا جہانگیر ترین کا ٹرسٹ پر کنٹرول نہیں، ٹرسٹ کے بینیفیشری ہونے کے ناطے اسے بھی گوشواروں میں ظاہرکرناچا ہیے تھا جبکہ جہانگیرترین نے ٹیکس اتھارٹی کو ٹرسٹ کا بینیفیشل بچوں کا بتایا، جہانگیرترین کے موقف میں تضاد ہے، کاغذات نامزدگی میں کسی کوبینفیشل نہیں بنایاگیا۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔