2004ءمیں کنفیشنز آف اکنامک ہٹ مین کے نام سے ایک حیران کن کتاب مارکیٹ میں آئی تھی‘ یہ کتاب بوسٹن کی ایک انجینئرنگ کنسلٹنگ فرم کے ایک سابق ملازم جون پرکنز کے اعترافات پر مبنی تھی‘ جون پرکنز نے کتاب میں انکشاف کیا‘ دنیا میں اب ملکوں کو ہتھیاروں اور جنگوں سے تباہ نہیں کیا جاتاانہیں معاشیات یا اکانومی کے ذریعے تباہ کیا جاتا ہے‘ آپ کسی ملک کی برآمدات کم کر دیں‘ درآمدات بڑھا دیں‘ فیکٹریاں بند کر دیں‘ قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کر دیں‘ سٹاک ایکس چینج تباہ کر دیں اور کرنسی کی ویلیو کم کر دیں وہ ملک دفاعی لحاظ سے کتنا ہی بڑا اور مضبوط کیوں نہ ہو وہ سسک سسک کر ختم ہو جائے گا۔
یہ فلاسفی سو فیصد درست ہے‘ ہم روز کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ملک اگر معاشی لحاظ سے مضبوط ہو تو یہ دفاعی لحاظ سے بھی مضبوط ہو جائے گا اور اگر یہ معاشی سطح پر نیچے جا رہا ہے تواس کی دفاعی مٹھی بھی کھلتی چلی جائے گی‘ آپ سوویت یونین کی مثال لے لیجئے‘اس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوج تھی اور دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار تھے لیکن جب یہ معاشی لحاظ سے کمزور ہوا تو یہ 15ممالک میں تقسیم ہو گیا‘اسے فوج اور ایٹمی ہتھیار بھی بچا نہ سکے‘ آپ اس حقیقت کو ذہن میں رکھئے اوراس کے بعدآج کراچی میں آئی ایس پی آر کے سیمینار کو دیکھئے‘ یہ سیمینار معیشت اور سلامتی کے ایشو پرتھا‘ آرمی چیف جنرل باجوہ نے بھی اس میں خطاب کیا‘ واقعی سلامتی اور معیشت آپس میں جڑے ہوئے ہیں لیکن سوال یہ ہے اس ایشو پر فوج سیمینار کرانے پر کیوں مجبور ہوئی اور حکومت اس پر کیوں خاموش ہے‘ کہیں ایسا تو نہیں فوج ملک میں آنے والی معاشی بدحالی کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے اور یہ اس صورتحال میں بہتری چاہتی ہے‘ اگر ایسا ہے تو پھر ظاہر ہے وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر دباﺅ بڑھ جائے گا‘انہیں اپنے مقدمات اور وزارت خزانہ دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا‘لیکن وزیراعظم یہ حقیقت ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔آج شیخ رشید نے بھی دھمکی دے دی ۔
سوال یہ ہے کیا حکومت خود کواس گرتی ہوئی معاشی صورتحال کا ذمہ دار سمجھتی ہے‘ جی نہیں ۔حکومت معاشی صورتحال کو کیسے بہتر بنا سکتی ہے‘ کیا وزیرخزانہ کی تبدیلی سے معاشی صورتحال بہتر ہو جائے گی؟