ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے ایف بی آر کے چیئرمین کو بجٹ تجاویز بھیج دیں

datetime 17  اپریل‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(نیوز ڈیسک)آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (اے پی سی ایم اے) نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین کو بجٹ تجاویز بھیج دی ہیں جس میں انڈسٹری کو درپیش مشکلات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔چیئرمین اے پی سی ایم اے محمد علی ٹبہ نے بجٹ سفارشات میں اجاگر کیا کہ سیمنٹ پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس ریٹیل قیمت پر عائد ہے یہ ٹیکسز ایک بیگ کی کُل قیمت کا تقریباً 95 روپے فی سیمنٹ بیگ بنتا ہے، زیادہ ٹیکسز کی وجہ سے فروخت پر منفی اثرات پڑتے ہیں اور ٹیکس سے بچنے کے دیگر منفی اقدامات کا سبب بنتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ڈیوٹی کو مرحلہ وار کم کرتے ہوئے اسے بالکل ختم کردے جیسا کہ اس سے قبل سابقہ حکومت نے سیمنٹ انڈسٹری کی حوصلہ افزائی کے لیے اقدام کیا تھا کیونکہ سیمنٹ لگژری سامان میں شامل نہیں ہوتی ہے۔ ایکسائز ڈیوٹی کے خاتمے سے نہ صرف ٹیکس کی چوری روکنے میں مدد ملے گی بلکہ سیمنٹ کی کم قیمت اس کی کھپت میں اضافے کا بھی باعث بنے گی۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح سیمنٹ انڈسٹری میں استعمال ہونے والے کوئلے پر فنانس ایکٹ 2014ءکے تحت ایک فیصد امپورٹ ڈیوٹی عائد ہے جبکہ اس سے قبل اس پر کوئی ڈیوٹی عائد نہیں تھی لہذا اس ڈیوٹی کو بھی واپس لیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں دیگر ایندھن ذرائع میں صرف کوئلے پر ٹیکس عائد کیا جانا امتیازی رویہ ہے۔ درآمدی کوئلہ کا زیادہ مصرف سیمنٹ انڈسٹری کرتی ہے اور درآمد ہونے والے سالانہ 4.5 ملین ٹن کوئلے کا 95 فیصد انڈسٹری کے استعمال میں آتا ہے۔گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے دیگر صنعتیں بھی کوئلہ استعمال کرنے لگی ہیں اور بہت سی مزید صنعتیںبھی کوئلے کی جانب راغب ہو رہی ہیں، لہٰذا یہ ڈیوٹی توانائی کے متبادل ذریعے کے طور پر کوئلے کے استعمال کی حکومتی مثبت کوششوں کو نقصان پہنچائے گی۔ چیئرمین اے پی سی ایم اے نے مزید کہا کہ پاکستان میں عائد سیلز ٹیکس دنیا میں سب سے زیادہ ہیں اس لیے سیلز ٹیکس کو کم کرکے 12.5 فیصد پر لایا جائے تاکہ پاکستان میں کاروباری لاگت میں ہونے والے اضافے کو کم کیا جاسکے۔ اس ضمن میں مرحلہ وار اس میں مزید کمی کرکے اس کو آئندہ تین برسوں میں 10 فیصد تک لایا جائے۔ اس اقدام سے غیر رجسٹرڈ کاروباری ادارے بھی رجسٹر ہوں گے اور وہ پیداواری عمل میں ملنے والے فائدے بھی حاصل کرسکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سیمنٹ انڈسٹری نے جدید ترین مشینری یورپ سے درآمد کرنے پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے اور یہ منصوبے سی ڈی ایمکیوٹو پروٹوکول یواین ایف سی سی سی کے تحت درج ہیں۔ فاضل میٹیریل سے فوسل فیول کے استعمال کو کم کیا جاتا ہے ۔ سیمنٹ کی تیاری میں 20 فیصد سے 35 فیصد تک کوئلے کے استعمال کی جگہ فاضل میٹیریل کو استعمال کیا جاتا ہے ، اس طرح کاربن ڈائی آکسائڈ اور دیگر گیسوں کے ماحول میں اخراج میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ ملک میں متبادل فیول کی ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی درآمد پر کوئی ٹیکس عائد نہ کیا جائے۔اس مثبت اقدام سے ملک میں سیمنٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ سرمائے کی حامل اشیاءپر کسٹم ڈیوٹی ایک بہتر فیصلہ تھا جو 5 فیصد سے 10 فیصد تک پلانٹس، مشینری ، آلات وغیرہ پر عائد تھی ۔ فنانس ایکٹ 2014ءایف بی آر کے ایس آر او 575 کے تحت سرمائے کی حامل اشیاءپر دی گئی چھوٹ واپس لے لی گئی۔انہوں نے بجٹ تجاویز میں اس بات کی بھی سفارش کی تھی کہ متوازن، جدید اور متبادل سرمایہ کاری جو سرمائے کی حامل اشیاءپر کی جائے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور کیپیٹل گڈز کو سیریل نمبر 18 شیڈول پانچ، کسٹم ایکٹ 1969 کے تحت ہونا چاہیے۔
ٹیکنالوجی میں بہت تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں اور انہیں زیادہ موثر اور جدید بنایا جارہا ہے اس لیے اس ضمن میں کیپیٹل گڈز کی حوصلہ افزائی انڈسٹری کے لیے معاون ثابت ہوگی۔ انہوں نے اس بات کی بھی تائید کی کہ جو مشینری کا سامان، پرزہ جات پاکستان میں تیار نہیں کیا جاتا اس پر ڈیوٹی پانچ فیصد اور زیادہ سے زیادہ دس فیصد رکھی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس ڈیوٹی کو کم کرکے حکومت ملک میں کاروباری لاگت کم رکھنے اور کاروبار کے لیے یکساں مواقع فراہم کرنے اہداف کو حاصل کرسکے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے سیمنٹ انڈسٹری کے لیے مخصوص ٹرکوں پر پانچ فیصد کسٹم ڈیوٹی اس شرط کے ساتھ عائد کررکھی ہے کہ یہ ٹرک صرف سیمنٹ انڈسٹری میں مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کئے جائیں گے اور دس سال تک کسی دوسری کمپنی یا فرد کو فروخت نہیں کئے جاسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تاہم ایف بی آر نے ایس آر او 575 کو ختم کرکے اس رعایت کو بھی ختم کردیا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ ان ٹرکوں سیمنٹ انڈسٹری کے لیے پانچ فیصد ٹیکس پر درآمد کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ یہ ٹرک پاکستان میں نہیں بنائے جاتے۔ اور ان ٹرکوں کو پانچویں شیڈول کسٹم ایکٹ 1969 کے تحت شمار کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ سیمنٹ انڈسٹری کے موثر کان کنی کے امور کی انجام دہی اور بہتر ماحولیات اور پیداوار کے لیے یہ ٹرک سیمنٹ انڈسٹری کی باقاعدہ ضرورت ہیں۔ ان ٹرکوں کی میعاد استعمال بھی دس بارہ سال ہوتی ہے۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…