لاہور(نیوز ڈیسک)حال ہی میں امریکہ کی ایک عدالت نے خواتین سے بدلہ لینے کے لیے ان کے سابقہ شوہروں اور دوستوں کی جانب سے لیک کی گئی قابل اعتراض تصویروں کو ’ریونج پورن‘ نامی ویب سائٹ پر پوسٹ کرنے والے شخص کو 18 سال قید اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی ہے۔خواتین کو ذہنی تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے دنیا بھر میں اب انٹرنیٹ ایک اہم ہتھیار بنتا جا رہا ہے۔پاکستان میں بھی خواتین کو آن لائن ہراساں کرنے کا رواج تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ لیکن یہاں نہ تو ایسے جرائم کے خلاف قانون موجود ہے اور نہ ہی انٹرنیٹ سکیورٹی سے متعلق کوئی آگہی۔پاکستان میں کتنی خواتین انٹرنیٹ یا سمارٹ فون تک رسائی رکھتی ہیں اس حوالے سے تو کوئی مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں تاہم ہیکنگ، سائبر سٹاکنگ اور شناخت کی چوری کے واقعات یقیناً ہزاروں خواتین کے ساتھ ہوچکے ہیں۔فاطمہ علی بھی ان میں سے ایک ہیں۔ فاطمہ نے بتایا کہ انھیں انٹرنیٹ پر دھمکیاں دی گئیں کہ ان کی تمام نجی معلومات آن لائن پوسٹ کردی جائیں گی۔’مجھے خود پر بہت اعتماد تھا۔ میں جانتی تھی کہ میں نے کوئی غلط کام کیا ہی نہیں تو مجھے ایسی دھمکیوں سے کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن میں اندر سے ڈر بھی رہی تھی کہ پتہ نہیں کیا ہوگا۔ پتہ نہیں میری کیا بدنامی ہو جائے۔ اور خوف کی وجہ سے میں یہ معلومات اپنی فیملی سے بھی شیئر نہیں کررہی تھی۔‘
اکثر ایسی صورتحال کا نتیجہ صرف یہ نہیں ہوتا کہ خواتین ذہنی دباؤ کا شکار رہتی ہیں بلکہ بہت مرتبہ تو انھیں انٹرنیٹ اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے استعمال سے ہی روک دیا جاتا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں ٹیکنالوجی کے بغیر زندگی گزارنا ممکن نہیں۔ اور ٹیکنالوجی کے استعمال کا حق بھی اب بنیادی حقوق میں ہی شامل ہوتا جارہا ہے۔
ایسی صورت میں خواتین کو یہ بتانے کی ضرورت شاید زیادہ ہے کہ وہ آن لائن کیسے محفوظ رہ سکتی ہیں۔ اور اسی مقصد کے لیے ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن نے ’ہمارا انٹرنیٹ‘ نامی مہم شروع کی ہے۔اس مہم کے تحت خواتین کو انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال سے متعلق تربیت دی جا رہی ہے۔ مختلف تعلیمی اداروں میں تربیتی سیشنز منعقد کیے گئے ہیں جن میں نوجوان لڑکیوں کو یہ آگہی دی جارہی ہے کہ سمارٹ فونز اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر انھیں کس قسم کے خطرات درپیش ہیں اور وہ اس سے بچنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کرسکتی ہیں۔یہ ایک بہت معلوماتی سیشن تھا۔ مجھے اندازہ اور تجربہ تھا کہ لوگ انٹرنیٹ پر خواتین کو تنگ کرتے ہیں۔ ان کا پیچھا کرتے ہیں انھیں نامناسب پیغامات بھیجتے ہیں۔ لیکن یہ جرائم کس حد تک جاسکتے ہیں اور اس کے ہم پر کیا اثرات ہوسکتے ہیں یہ مجھے بالکل پتہ نہیں تھا۔ میں نے یہ سیکھا ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائل فون استعمال کرتے ہوئے میں خود کو کس طرح محفوظ رکھ سکتی ہوں۔
یہ مہم شروع کرنے والی ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد نے بتایا ’لڑکیاں یہ جاننے کے بارے میں بہت پر جوش ہیں کہ وہ انٹرنیٹ پر اپنی بات چیت، تصاویر اور دوسری معلومات کو کیسے محفوظ رکھ سکتی ہیں۔پہلے انھیں اس طرح کی معلومات کبھی دی ہی نہیں گئیں کہ وہ سنگین نوعیت کے سائبر کرائمز سے بچ سکیں اور انھیں پولیس یا عدالت تک نہ جانا پڑے۔ ’ہمارا انٹرنیٹ‘ مہم کے دوران خواتین کو وہ قوانین اور حکمت عملی بھی بتائی جارہی ہے جو وہ آن لائن ہراساں کیے جانے کے بعد اختیار کرسکتی ہیں۔‘
ہادیہ حمید الیکٹریکل انجنیئرنگ کی طالبہ ہیں۔ وہ گذشتہ کئی برس سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس استعمال کررہی ہیں۔ ماضی میں ان ویب سائٹس کے ذریعے ہراساں بھی ہوچکی ہیں۔
انھوں نے لاہور کی یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں ہونے والے ’ہمارا انٹرنیٹ‘ کے ایک تربیتی سیشن میں شرکت کی۔خواتین کو یہ بتانے کی ضرورت شاید زیادہ ہے کہ وہ آن لائن کیسے محفوظ رہ سکتی ہیں۔ہادیہ کہتی ہیں ’یہ ایک بہت معلوماتی سیشن تھا۔ مجھے اندازہ اور تجربہ تھا کہ لوگ انٹرنیٹ پر خواتین کو تنگ کرتے ہیں۔ ان کا پیچھا کرتے ہیں انھیں نامناسب پیغامات بھیجتے ہیں۔ لیکن یہ جرائم کس حد تک جاسکتے ہیں اور اس کے ہم پر کیا اثرات ہوسکتے ہیں یہ مجھے بالکل پتہ نہیں تھا۔ میں نے یہ سیکھا ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائل فون استعمال کرتے ہوئے میں خود کو کس طرح محفوظ رکھ سکتی ہوں۔‘لیکن ہادیہ اور سیشن میں شرکت کرنے والی بہت سے طالبات سمجھتی ہیں کہ اس طرح کی تربیت کو صرف خواتین تک محدود کرنا مناسب نہیں۔یہ تربیت مردوں کو بھی دی جانی چاہیے اور انھیں یہ سمجھانا ضروری ہے کہ وہ آن لائن اپنی اخلاقیات کا خیال رکھیں اور خواتین کے ڈیجیٹل اور انسانی حقوق کو پامال کرنے سے گریز کریں ورنہ انھیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں تو شاید ایسے سیشنز کرنا ممکن نہیں تاہم خواتین کے لیے محفوظ براؤزنگ کی ٹپس ’ہمارا انٹرنیٹ‘ کی ویب سائٹhttp://www.hamarainternet.org پر بھی دستیاب ہیں
پاکستانی خواتین کو انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال سے متعلق تربیت
15
اپریل 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں