ملتان(نیوز ڈیسک) معروف محقق اور زکریایونیورسٹی شعبہ سرائیکی کی اسسٹنٹ پروفیسر نسیم اختر نے چھٹی صدی ہجری کے سرائیکی شعری مجموعہ کا ایک قلمی نسخہ دریافت کیا ہے جسے’’ ذبح نامہ ‘‘کے نام سے شائع بھی کردیاگیا ہے۔یہ نسخہ نامور محقق اور دانشور ڈاکٹر مہر عبدالحق کی لائبریری کاحصہ تھا اور اس پر ان کی لائبریری کی مہر بھی ثبت ہے۔پروفیسر نسیم اختر نے ذبح نامہ کاعلمی ولسانی تجزیہ کیا ،اس کی اشاعت کا عرصہ اور مصنف کا نام تلاش کیا اور قدیم سرائیکی زبان کی املا ء ،تلفظ اور معانی کی وضاحت بھی کی۔سرائیکی ادبی بورڈ ملتان نے اس قلمی نسخے کا عکس حواشی اور تشریحات کے ساتھ شائع کردیا ہے۔
پروفیسر نسیم اخترکاکہناہے کہ ذبح نامہ کے مصنف کاتعلق سرائیکی بولنے والے ایسے علاقے سے ہے جس پر سندھی معاشرت اور زبان کے گہرے اثرات ہیں۔پروفیسر نسیم اختر لکھتی ہیں کہ ذبح نامہ اس دور کی تصنیف ہے جب معراج نامے ،نورنامے ایک شعری صنف کے طورپر رائج تھے۔ذبح نامہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا واقعہ منظوم کیاگیاہے۔قلمی نسخے میں شاعرنے اپنا تخلص قبولا بیان کیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ سرائیکی شاعر محمد قبول خان چانڈیو کا کلام ہے جو حضرت میاں قبول اور حضرت قبول فقیر کے ناموں سے بھی جانے جاتے تھے۔ان کا زمانہ چھٹی صدی ہجری کے آخر کا ہے۔
قلمی نسخے کی بازیافت کے بارے میں نامور محقق ڈاکٹر طاہرتونسوی نے کہاکہ یہ بازیافت تحقیقی اعتبار سے انفرادی حیثیت کی حامل ہے۔پروفیسر شوکت مغل کاکہناہے کہ ذبح نامہ کے مطالعے سے قدیم سرائیکی زبان کااسلوب اور اس زمانے کی شاعری اور ثقافت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ایسے تحقیقی کام جاری رہنے چاہیں۔
چھٹی صدی ہجری کا سرائیکی شعری مجموعہ کا قلمی نسخہ دریافت ، شائع کردیاگیا
14
اپریل 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں