لاہور( این این آئی) عدالتی فیصلہ پبلک پراپرٹی بن چکا ہے ،عوام نے فیصلے پر اپنا رد عمل دیدیا ہے اور اس پر رد عمل آتا رہے گا ،اس فیصلے کو بھی مسترد کئے گئے ان فیصلوں کی الماری میں رکھ دیا گیاہے جو بے توقیر ہو چکے ہیں ،پاناما فیصلہ غلط بنیادوں اور غلط انداز میں کیا گیا اس لئے ایسا فیصلہ واپس لیا جائے،کیا 18کے 18 وزیراعظم نواز شریف تھے جن کی نہیں بنی،ہمیں70 سالوں پر محیط اس افسوسناک تاریخ کا دھارا ہمیں موڑنا ہوگاورنہ یہ ملک دوبارہ کسی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے،
سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے ملک کو آئین و قانون کے طے شدہ اصولوں کے مطابق چلانے اورعوا م کے ووٹ کے تقدس کیلئے قومی مکالمے کے آغاز کیلئے مسلم لیگ(ن) کی طرف سے کمیٹی کے قیام کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے توقع ہے کہ ساری قوم اس قومی مشن اور تحریک آزادی پاکستان کی طرز پر اس تحریک کی کامیابی میں اپنا حصہ ڈالے گی ،جبکہ محمد نواز شریف نے پانامہ کیس میں اپنی نا اہلی پر قوم سے 12سوالات پوچھتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلہ پبلک پراپرٹی بن چکا ہے ،عوام نے فیصلے پر اپنا رد عمل دیدیا ہے اور اس پر رد عمل آتا رہے گا ،اس فیصلے کو بھی مسترد کئے گئے ان فیصلوں کی الماری میں رکھ دیا گیاہے جو بے توقیر ہو چکے ہیں ،مسلمہ اصول ہے کہ عدالتوں کا فیصلہ انصاف کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے اور ہوتا ہوا دکھائی بھی دینا چاہیے لیکن پاناما فیصلہ غلط بنیادوں اور غلط انداز میں کیا گیا اس لئے ایسا فیصلہ واپس لیا جائے،کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف کی کسی سے نہیں بنتی، ممکن ہے مجھ میں کوئی کمی ہو گی لیکن کیا لیاقت علی خان سے آج تک کسی وزیراعظم کی نہیں بنی اور کیا 18کے 18 وزیراعظم نواز شریف تھے،ہمیں70 سالوں پر محیط اس افسوسناک تاریخ کا دھارا ہمیں موڑنا ہوگاورنہ یہ ملک دوبارہ کسی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے ،
میری جدوجہد ، تبدیلی کی خواہش انقلاب کا حاصل یہ ہے کہ ملک کی تقدیر بدلے ،بیس کروڑ عوام کو ان کا حق حکمرانی دیا جائے ، ووٹ کے تقدس بحال کیا جائے ، اسے تبدیلی کہیں یا انقلاب اب اس مرض کا علاج ہونا چاہیے ۔ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے ایوان اقبال لاہور میں آل پاکستان وکلاء کنونشن سے خطاب کیا ۔ اس موقع پر گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ ،وفاقی وزیر قانون زاہد حامد ، سینیٹر پرویزرشید ، صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان ، صوبائی وزیر تعلیم رانا مشہود احمد خان ،سینیٹر ڈاکٹر آصف کرمانی ،نصیر احمد بھٹہ سمیت وکلاء کی کثیر تعداد موجود تھی ۔
نواز شریف نے کہا کہ مجھے قانون دانوں کے اتنے بڑے اجتماع میں آکر دلی خوشی ہو رہی ہے ۔ آپ ہر روز عدالتی مقدمے لڑتے ہیں اور میں بھی کئی سالوں سے عوام کی بڑی عدالت میں پاکستان ، جمہوریت اور عوام کا مقدمہ لڑ رہا ہوں آپ سے آج کی ملاقات اسی مقدمے کی کڑی ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور وکلاء کا رشتہ تحریک آزادی ، جمہوریت کے استحکام کے حوالے سے قومی اہمیت رکھتا ہے ۔ 1930ء میں پاکستان کا تصور پیش کرنے والے علامہ محمد اقبال پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے جبکہ اس خواب کو تعمیر کی شکل دینے والے قائد اعظم محمد علی جناح بھی وکیل تھے ۔
قیام پاکستان ، آمریت کے خلاف اور جمہوریت کیلئے جب بھی تحریک اٹھی وکلاء اس کا ہر اول دستہ رہے ۔ جمہوریت کی جنگ لڑ نے والے سیاستدانوں کو بھی با ر رومز کے پلیٹ فارم میسر آئے ۔ وکلاء نے آمریت کا نشانہ بننے والے جج صاحبان کی بحالی ، عدلیہ کی آزادی کیلئے جاندار تحریک چلائی ، سختیاں برداشت کیں اور زندگیاں قربان کیں ،یہ جدوجہد کسی فرد واحد یا چند افراد کے لئے نہیں بلکہ عدلیہ کی آزادی ،آئین کی سر بلندی ،قانون کی بالا دستی اور انصاف کے لئے تھی اور اس کے نتیجے میں جج بحال ہوئے اور اس سے عوام کا اعتماد بحال ہوا کہ یہاں انصاف کی حکمرانی ہو گی ۔
انہوں نے کہا کہ آج بھی آپ وکلاء پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ علامہ اقبال کی فکر اور قائد اعظم کے کردار کی روشنی میں جمہوریت کے استحکام ،آئین و قانون کی حکمرانی کے لئے کردار ادا کریں ۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ آمریتوں کو جواز فراہم کرنے کیلئے طرح طرح کے نقطے دینے والے بھی وکلاء تھے ، آج میں ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں جہاں طعنہ زنی کی جاتی ہے لیکن یہ معیار صرف ایک ہونا چاہیے ، اگر آج بانی پاکستان قائد اعظم زندہ ہوتے تو کس فیصلے کے ساتھ کھڑے ہوتے ۔ آپ پانامہ کی داستان سے واقف ہیں ، اس فہرست میں شامل سینکڑوں لوگوں میں میر انام تک شامل نہیں تھا،
یہ معاملہ سامنے آتے ہی میں نے پیشکش کی کہ سپریم کے کسی عزت مآب جج پر مشتمل کمیشن سے تحقیقات کرالی جائیں لیکن کئی ہفتے گزرنے کے باوجود جواب نہیں آیا ۔ا پوزیشن کے مطالبے پر تین معزز ججز صاحبان پر مشتمل کمیشن کی تشکیل پر رضا مندی ہوئی لیکن پھرٹی او آرز کا ایشو آگیا مسئلہ حل کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں کے ممبران کی پارلیمانی کمیٹی قائم کر دی لیکن وہاں پر بھی لچک نہیں دکھائی گئی لیکن اصل منصوبہ یہ تھاکہ معاملے کو گلیوں سڑکوں پر لا کر ایسی فضاء پیدا کی جائے جس سے کرائسز پیدا کئے جائیں ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر ہوئی تو اسے فضول اور بے معنی قرار دے کر خارج کر دیا گیا لیکن پھر ایک دھرنے او رلاک ڈاؤن کا اعلان ہوا اور وہی فضول او ربے معنی پٹیشن معتبر ٹھہری اور اس کی سماعت شروع ہو گئی جو کہ آپ کے سامنے ہے ۔ ایک فیصلہ 20اپریل کو آیا جبکہ دوسر ا فیصلہ 28جولائی کو سامنے آیا اور آپ ان فیصلوں کے بارے میں ہم سب سے بہتر جانتے ہیں میں قانون دانوں سے چند سوالات پوچھتا ہوں جو عام شہری کو پریشان کرتے ہیں ۔ نواز شریف نے سوال کیے کہ کیا آج تک ایسا ہوا ہے کہ وٹس ایپ کالز پر پراسرار طریقے سے تفتیش کرنے والوں کا انتخاب کیا گیا ہو؟،
کیا آج تک اس قسم کے الزامات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ نے اس طرح کی جے آئی ٹی تشکیل دی ؟،کیا اس سے پہلے قومی سلامتی اور دہشت گردی سے ہٹ کر کسی معاملے کی تحقیق کے لیے خفیہ ایجنسیوں کے ارکان کو ذمہ داری سونپی گئی ؟،کیا آ ج تک سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ایسی جے آئی ٹی کی ہمہ وقت نگرانی کی ہے ؟کسی درخواست میں دبئی کی کمپنی اور تنخواہ لینے کی بنیاد پر نا اہلی کی استدعا کی گئی ؟کیا کوئی بھی عدالت واضح ملکی قانون کو نظر انداز کر کے مطلب کے معنی تلاش کرنے کے لیے ڈکشنری کا سہارا لے سکتی ہے ؟
کیا ہماری 70سالہ تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی ایک مقدمے میں 4فیصلے سامنے آئے ہوں ؟،کیا کبھی وہ جج صاحبان بھی پھر سے حتمی فیصلے والے بینچ میں شامل ہوئے جو پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکے ہوں ؟،کیا ان جج صاحبان کو بھی رپورٹ کی بنیاد پر کوئی فیصلہ دینے کا حق تھا جنہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ دیکھی تک نہیں اور نہ اس پر بحث سنی ،نہ سماعت کے مرحلے میں شریک ہوئے ؟کیا پوری عدالت تاریخ میں کبھی ایسا ہوا کہ نہ صرف نیب کی کارروائی بلکہ ٹرائل کورٹ کی مانیٹرنگ کے لیے بھی سپریم کورٹ کے ایسے جج کا تقرر کردیا جائے جو پہلے ہی خلاف فیصلہ دے چکا ہو؟
کیا سپریم کورٹ کے جج کی مانیٹرنگ کے نیچے ٹرائل کورٹ آزادانہ کام کر سکتا ہے ؟کیا نیب کو اپنے قواعد سے ہٹ کر کام کرنے کے لیے کوئی عدالتی ہدایت دی جا سکتی ہے ؟۔آپ وکلاء سے بہتر کون جانتا ہے کہ ضابطہ فوجداری کے تحت اندراج مقدمہ کے لئے کس عدالت سے رجوع کیا جاتا ہے ۔ 22اے ، بی کے تحت یہ اختیار ایڈیشنل جج کی عدالت کو ہے لیکن یہاں براہ راست عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا گیا ۔ نیب کے قانون کے مزین کردہ اصولوں کے مطابق ریفرنس فائل ہونے کے لئے پہلے شکایت کنندہ کی تصدیق ، پھر انکوائری ، انوسٹی گیشن کا پورا ہونا لازمی ہے
اور اس کے لئے کسی بھی شہری کو ہر مرحلے پر عدالت عدالیہ سے رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے یہ صرف چند سوالات ہیں جو ہر پاکستانی پوچھ رہا ہے ۔ قانون کی معمولی شد بد رکھنے والے ہر پاکستانی نے یہ معاملہ اٹھایا ہے کہ غلط بنیادوں پر غلط انداز میں کیا گیا فیصلہ واپس لیا جائے ۔ نواز شریف نے کہا کہ ہم نے اس فیصلے پر عملدرآمد میں لمحہ بھر کی تاخیر نہی کی اور فوری طور پر دست کش ہو گیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ غلط اور افسوسناک نظیر بنانے والے فیصلے کو دل و جان سے تسلیم کر لیا جائے۔ ہم نے فیصلے پر عملدرآمد کر لیا لیکن اسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔
عدلیہ کی تاریخ میں کئی فیصلے موجود ہیں جن کبھی تسلیم کیا گیا اور نہ ہی ان کوعزت اور توقیر مل سکی ۔ معلوم ہے مولوی تمیزی الدین، ظفر علی شاہ کیس کس نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ؟۔وکلاء معاشر ے کے طبقات اور عوام نے اس فیصلے پر اپنا رد عمل دیدیا ہے اور یہ آتا رہے گا ،یہ فیصلہ پبلک پراپرٹی بن چکا ہے یہ فیصلہ مسترد ہونے والے فیصلوں کی الماری میں رکھا گیا ہے جو بے توقیر ہو چکے ہیں ۔ مجھے یہ دکھ نہیں کہ اس کے اثرات میری ذات پر پڑے کیونکہ میں ماضی میں بھی اس کا نشانہ بنتا رہا ہوں ،پہلے اللہ اور پھر عوام کی عدالت پر چھوڑا ہے اور اب بھی اس فیصلے کو اللہ اور عوام پر ہی چھوڑ رہا ہوں۔
لیکن مجھے دکھ ضرور ہے کہ اس فیصلے سے ترقی خوشحالی کے سفر کو زد پہنچی جو ہمواری سے جاری تھا ، اس کی زد آئین پر پڑی ہے جس کی تشریح کے بغیر منتخب عوامی نمائندوں پر مستقل تلوار لٹکا دی گئی ہے ،ان آئینی شقوں پرپڑی ہے جس سے فیئر ٹرائل کا حق ملتا ہے ، اسکی زد انصاف کے عمل میں پڑی جو مہذب معاشروں کی پہچان ہوتی ہے ۔ صدیوں کا مسلمہ اصول ہے کہ انصاف ہونا نہیں چاہیے بلکہ انصاف ہوتا ہوا دکھائی بھی دینا چاہیے ۔ بد قسمتی سے اس ایک ایسے فیصلے کے طو رپر یاد رکھا جائے گا کہ اس میں سرے سے انصاف ہوا ہی نہیں بلکہ قدم قدم پر دکھائی دیتارہا ہے کہ انصاف نہیں ہو رہا ۔
فسوسناک بات یہ ہے کہ اس فیصلے نے عدالت کے وقار ،اعتماد اور ساکھ پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔عدلیہ کی آزادی ، بحالی کیلئے عوام او روکلاء نے تاریخ ساز جدوجہد کی اور اس کے لئے اپنا لہو دیا سب کچھ کرنے کے بعد بھی انصاف قانون کی حکمرانی کا یہ حال ہے تو اندازہ لگائیں عدلیہ پر عوامی اعتماد کا عالم کیا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ آپ کا شمار پڑھے لکھے اور با شعور طبقات میں ہوتا ہے ملکی تاریخ آپ کے سامنے ہے 14اگست سے لے کر آج تک کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں اور جائزہ لیں ایسا ایک بھی فیصلہ ہے ؟۔ اب ضروری ہو گیا ہے کہ ہم اس بیماری کا سراغ لگائیں جو 70سال سے ہمیں کھا رہی ہے ،
قانون کی حکمرانی کوسوالیہ نشان بنا دیا گیاہے ، اسی ماہ ہم نے آزادی کی 70ویں سالگرہ منائی مختصر تاریخ یہ ہے کہ ملک میں ہونے والے پہلے عام انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کئے گئے اورملک دو ٹکڑے ہو گیا کہنے کو ہم جمہوریہ کہلاتے ہیں لیکن چار ڈکٹیٹروں نے 23برس تک اس ملک پر براہ راست حکمرانی کی جبکہ 37سال 18وزرائے اعظم کے حصے میں آئے ہر ڈکٹیٹر کو اوسطاساڑھے 8سال ملے جبکہ ہر وزیر اعظم کو اوسطاً دو سال ملے ۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد 1973ء ء میں آئین تیار ہوا جس مین آئین توڑنے اور بازور بازو حکومت کا تختہ الٹنے والے کو آرٹیکل 6 میں جرم قرار دیا گیا لیکن اب تک کیا ہوا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو عوامی حمایت سے اقتدار میںآئے لیکن ان کا تختہ الٹا گیا پھر انہیں پھانسی پر چڑھا دیا گیا ، بینظیر بھٹو دوسری شخصیت تھیں جو وزیر اعظم منتخب ہوئیں لیکن انہیں دو بار فارغ کر دیا گیا اور پھر قتل کر دی گئیں ، عوام نے مجھے تین بارمنتخب کیا ، ایک مرتبہ 58ٹو بی کی تلوار چلائی گئی اور ایک صدر نے مجھے گھر بھیج دیا جبکہ دوسری بار ایک ڈکٹیٹر نے وزیر اعظم ہاؤس سے اٹک قلعے میں ڈال دیا او رمجھے ہائی جیکر قرار دے کر سزائی سنائی گئی اور پھر جلا وطن کر دیا گیا ۔عوام نے تیسری بار اعتماد سے نواز اور عدالتی فیصلے میں مجرم قرار دے کر نا اہل کر ڈالا ۔
میں پوچھتا ہوا میرا جرم کیا ہے کیا ہے جرم ۔ میر اجرم یہ ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ کیوں نہیں لی ۔ اس تاریخ کا حاصل یہ ہے کہ 70برس کے دوران ایک وزیر اعظم بھی اپنی آئینی معیاد پور ی نہیں کر سکا ۔کچھ لوگ کہتے ہیں نواز شریف کی کسی سے نہیں بنتی میں کہتا ہوں میری اندر کوئی کمی ہو گی لیکن پوچھتا ہوں لیاقت علی خان سے آج تک کسی ایک کی تو بنتی کیا 18کے 18وزیر اعظم نواز شری تھے یہ ہے وہ صوتحال جس کی اصلاح ہونی چاہیے ۔ میں جسے تبدیلی یا انقلاب کہتا ہوں یہ ہے وہ مرض جس کا علاج ضرور ہونا چاہیے ورنہ ملک آگے نہیں بڑ ھ سکے گا،
اگر 70سالوں پر محیط تاریخ کا دھاڑا موڑنا ہے ورنہ یہ ملک دوبارہ کسی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے ۔ پاکستان غیر مستحکم جمہوری نظام مسلط رہنے کی بھاری قیمت ادا کر چکا ہے عوام کسی نئے امتحان نہ ڈالا جائے ۔ میں پوری قوم کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے اپنی بے پناہ محبت سے نواز ، بری امام سے لے کر داتا کی نگری میں والہانہ پر جوش انداز میں استقبال کیا جس سے مجھے حوصلہ ملا ، چار روزہ سفر میں عوام کی عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے ۔ میں نے لوگوں کے دلوں کادرد محسوس کیا ہے ، ان کے اندر اپنے ووٹ کے تقدس کی تڑپ دیکھی ہے ،
میں نے ان میں غصہ دیکھا ہے اور سب کچھ بدل ڈالنے کی امنگ دیکھی ہے ۔ آج عوام کے ووٹ کے ساتھ آج جو کچھ ہو رہا ہے ان کے والدین ،دادا ،نانا کے ووٹ ساتھ بھی یہی سلوک ہوا ہے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا کہ تھاکہ عوامی رائے کبھی غلط نہیں ہو سکتی ، لیکن یہ درس دیا جاتا ہے کہ عوامی رائے غلط تھی اور عوامی رائے کو مسترد کر دیا گیا ،منتخب پارلیمنٹ کو گھر بھیجا گیا ۔ وزرائے اعظم کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا گیا اور انہیں دو سال بعد گھر بھیج دیا گیا، ڈکٹیٹر کئی کئی دہائیاں حکومتیں کرتے رہے ۔ آئین کے تقاضوں کے برعکس ہماری عدالتیں آمروں کے اقدامات کو شرف قبولیت بخشتی رہیں انہیںآئین میں من پسند ترامیم کرنے کی اجازت دی گئی آئین کا حلیہ بیگاڑنے کی کھلی چھٹی دیتی رہی ۔
یہاں سیاستدان بھی ان آمروں کی وکالت کرتے رہے ہیں ، آئین کا حلف اٹھا کر اس سے انحراف کرتے ہوئے شخصی وفاداری کا حلف اٹھایاگیا۔ طاقت اور دولت کے گٹھ جوڑ نے ملک کو آمریت کے شکنجے میں جکڑے رکھا ۔ یہاں سیاستدان جیلوں میں گئے ، پھانسیاں چڑھے ملک بدر ہوئے لیکن کوئی آمر آئین شکنی کی سزا نہیں پا سکا ۔ ہمیں اس صورتحال کو بدلنا ہوگا ان سوراخوں کوبند کرنا ہوگا جہاں سے عوام کے حق حکمرانی کو ڈسا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ عوام کو اپنا اختیار استعمال کرنے کا موقع ملنا چاہیے یا نہیں ۔ مقدس امانت میں خیانت نہیں ہونی چاہیے ،
عوام نے اپنا آئینی اختیار استعمال کیا جبکہ یہاں غیر آئینی اختیار استعمال کرنے والوں نے عوام کے فیصلے کو پاؤں تلے روندا ۔ انہوں نے کہا کہ میں جس ڈائیلاگ کی بات کر رہا ہوں وہ میری ذات کے لئے نہیں میں چا ہتاہوں ہم اس بیماری کی تشخیص کریں اور علاج تجویز کریں ۔ میری جدوجہد ، تبدیلی کی خواہش انقلاب کا حاصل یہ ہے کہ ملک کی تقدیر بدلے ،بیس کروڑ عوام کو ان کا حق حکمرانی دیا جائے ، ووٹ کے تقدس بحال کیا جائے ۔ ووٹ کی بے حرمتی سے پہلے بھی ملک دولخت ہوا ، آج اسی وجہ سے ہم قوموں کی برادری میں تماشہ بنے ہوئے ہیں ۔ ہم قومی مکالمے پرسنجیدگی اور نیک نیتی سے آغاز کرنا چاہتے ہیں ۔
اس میں میری ذات کا کچھ نہیں ،میں اپنی نہیں بلکہ عوام کے حق حاکمیت کی بحالی چاہتا ہوں ۔ہم نے مسلم لیگ کی ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جوسیاستدانوں، وکلاء، اساتذہ، میڈیا ،دانشوروں،تاجروں ، مزدوروں ، سول سوسائٹی معاشرے کے ہر طبقے سے مکالمے کا آغاز کرے گی مجھے توقع ہے کہ قوم ملک کی تقدیر بدلنے کے عمل میں کامیابی میں اپنا حصہ ڈالے گی ، یہ قومی مشن تحریک آزادی پاکستان کی طرز پر تحریک ہے آپ کو اس تحریک میں حصہ ڈالنا چاہیے وکلاء اس میں اپنا حصہ ڈالیں گے اس کو کامیاب بنائیں گے ۔ نواز شریف نے وکلاء سے ہاتھ کھڑے کرا کے وعدہ لیاکہ اس میں اپنا بھرپور حصہ ڈالیں گے۔