واشنگٹن(این این آئی) امریکی سینیٹر جان میک کین نے کافی عرصے سے زیر بحث رہنے والی نئی افغان حکمت عملی کا اعلان کردیا ہے جس کے مطابق پاکستان کو سفارتی، فوجی اور معاشی پابندیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ پیش ہونے والی اس نئی حکمت عملی کے مطابق اگر پاکستان طالبان کی مبینہ مدد اور افغانستان میں انتشار پھیلانے والے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا رہا تو اسے بھی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
نئی حکمت عملی میں آئندہ مالی سال کے دفاعی بجٹ میں ترامیم شامل ہیں جس کے مطابق مزید امریکی فوجی اہلکاروں کو انسداد دہشت گردی کے مشن کے لیے تعینات کیا جائے گا۔افغانستان کے لیے نئی حکمت عملی امریکی حکام کو افغان افسران کے ساتھ کام کرنے کا موقع دے گی جس کے مطابق امریکی افواج طالبان، داعش اور دیگر تنظیموں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کرسکتی ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق امریکی سینیٹر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ امریکا کے کچھ سابق اور انتہائی تجربہ کار فوجی اہلکاروں اور خفیہ اداروں کے حکام نے بھی نئی افغان حکمت عملی بنانے میں مدد فراہم کی۔افغانستان سے متعلق حکمت عملی میں پاکستان پر نئی پابندیوں کے خطرات کے علاوہ پاک،امریکا طویل المدت شراکت داری کے فوائد کو بھی نمایاں کیا گیا، جو تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب پاکستان طالبان کو مبینہ مدد فراہم کرنا بند کرے اور افغان تنازع کو حل کرنے کے لیے اپنا تعمیری کردار ادا کرے۔امریکی سینیٹر کی جانب سے پیش کردہ حکمت عملی میں افغانستان سمیت خطے میں موجود دیگر ریاستوں کے ساتھ مذاکرات کی تجویز دی گئی جن میں پاکستان، چین، بھارت، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان شامل ہیں۔گذشتہ ماہ امریکی محکمہ دفاع نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں افغانستان کی سیکیورٹی اور استحکام کا جائزہ لیا گیا تھا جبکہ اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا تھا کہ پاکستان، افغانستان کی صورتحال پر اثر انداز ہونے والا سب سے با اثر بیرونی عنصر ہے جس سے افغانستان کا امن متاثر ہوتا ہے اور نیٹو افواج اپنے اہداف مکمل نہیں کر پاتے۔