انڈیا کی ریاست بی ہار میں ایک سرکاری لینڈ ریکارڈ کی عمارت مخدوش ہو چکی ہے‘ چھت سے پلستر گرتا رہتا ہے‘ بارش کاپانی بھی سیدھا نیچے آتا ہے‘ یہ عمارت کسی بھی وقت گر سکتی ہے لیکن عمارت کے ملازمین عمارت کی مرمت کرانے کی بجائے روز ہیلمٹ پہن کر دفتر آتے ہیں اورہیلمٹ کے ساتھ ڈیسک پر بیٹھ کر کام کرتے ہیں‘ میں نے جب یہ مناظر دیکھے تو مجھے محسوس ہوا ہماری حکومتیں بھی لینڈ ریکارڈ کے ان ملازمین سے متاثر ہیں‘
یہ جمہوریت کی چھت مضبوط کرنے کی بجائے ہیلمٹ پہن کر مدت پوری کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں‘ آپ شریف فیملی کو دیکھ لیجئے‘ عدالت ان سے ایک سال سے صرف دو سوال پوچھ رہی ہے‘ لندن کے فلیٹس کا اصل مالک کون ہے‘ ان فلیٹس کیلئے سرمایہ کہاں سے آیا؟لیکن انہوں نے سیدھا سادا جواب دینے کی بجائے ہیلمٹ پہن کر سال گزار دیا‘ یہ اگلے آٹھ ماہ بھی اسی طرح گزار دیں گے‘کیونکہ اس وقت بھی سپریم کورٹ میں شریف فیملی کے اٹھارہ وکیل حکومت کا ہیلمٹ بن کر کھڑے ہیں اور یہ عدالت کو دائیں ہونے دے رہے ہیں اور نہ ہی بائیں‘بہرحال یہ ایک ضمنی بات تھی‘ اصل بات یہ ہے‘ جے آئی ٹی بھی وزیراعظم کو مجرم ثابت نہیں کر سکی‘ یہ فلیٹس کی ملکیت بھی اسٹیبلش نہیں کر سکی اور یہ فلیٹس کی اصل منی ٹریل بھی نہیں کھوج سکی چنانچہ عدالت کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پا رہی‘ میرا ذاتی خیال ہے سپریم کورٹ شریف فیملی کو ایک اور موقع دے گی‘ یہ اس کیس کو ٹرائل کیلئے نیب کے پاس بھجوا دے گی تاہم نیب کو ٹائم لائین دی جائے گی‘ نیب اور نیب کورٹ دونوںاس ٹائم لائین کے اندر فیصلے پر مجبور ہوں گے اور یوں یہ حکومت پانچ سال پورے کر جائے گی تاہم یہ بھی حقیقت ہے سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ یہ ٹرائل کے بغیر میاں نواز شریف کو ڈس کوالی فائی کر دے لیکن عدالت اس موقع پر جب الیکشنوں میں صرف آٹھ ماہ باقی ہیںشاید اپنا یہ اختیار استعمال نہ کرے‘ یہ ملزموں کو آئین کے مطابق ٹرائل کا آخری حق دے۔
بات یہاں تک پہنچ چکی ہے لیکن وزیراعظم کو آج بھی اپنا جرم معلوم نہیں ،عمران خان نے جواب میں کہا کیا واقعی میاں نواز شریف کو سال بعد بھی یہ علم نہیں ان کا کس چیز کا احتساب ہو رہا ہے اور شریف فیملی کا وکیل کل کچھ نئے ڈاکومنٹس بھی عدالت میں پیش کرے گا‘ کیا یہ ڈاکومنٹس کہانی کا رخ موڑ دیں گے؟