کراچی (این این آئی) جمعیت علماء اسلام کے سربراہ اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف حالیہ مہم کو سی پیک کے خلاف امریکی اور بھارتی سازش قرار دیتے ہوئے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس سازش کے سامنے ڈٹ جائیں اور پیپلز پارٹی سے کہا ہے کہ وہ نوشتہ دیوار پڑھ لے۔ ہم نے گزشتہ اسمبلی میں بھٹو کے عدالتی قتل کے خلاف قرارداد منظور کی، ایسا نہ ہو کہ آنے والے دنوں میں ہم ایک اور قرارداد منظور کررہے ہوں۔
ملک، جمہوریت اور پارلیمنٹ کے خلاف کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ موجودہ مہم 2014ء کے دھرنوں کا تیسرا فیز ہے۔ تحریک انصاف نے خیبر پختونخواہ میں اداروں کو تباہ کردیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر باب الرحمت مسجد علامہ شاہ احمد نورانی چورنگی (نمائش چورنگی) میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا راشد محمود سومرو، قاری محمد عثمان، مولانا محمد غیاث، مولانا حماد اللہ شاہ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنما مولانا اعجاز مصطفیٰ اور دیگر بھی موجود تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس وقت ملک میں جو بحرانی کیفیت پیدا کی گئی ہے، یہ اس سازش کا حصہ ہے جس کے تحت سی پیک کے منصوبے کو ناکام اور پاکستان کو معاشی واقتصادی طور پر مفلوج کرنا ہے۔ یہ امریکی اور بھارتی منصوبہ ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ پہلے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کیا جائے اور اس کے بعد سی پیک کو سبوتاژ کیا جائے۔ ہمیں صرف جے آئی ٹی یا عدالتی کارروائی پر نظر رکھ کر بات کرنے کے بجائے تمام صورت حال اور اس کے نتائج پر وسیع النظر اور وسیع القلب ہو کر تجزیہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جو قوتیں جمہوریت کو کمزور اور پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کے منصوبے تیار کرتی رہی ہیں، آج کا منصوبہ بھی اسی کا تسلسل ہے۔ 2014ء میں جب سی پیک کا آغاز ہونے جارہا تھا تو اسلام آباد میں ہنگامہ کھڑا کردیا گیا۔
پارلیمنٹ اور اداروں کو گالیاں دی گئیں۔ مجبوراً چینی صدر کے دورے کو روکا گیا اور پھر ایوانوں سے استعفےٰ دے کر نکل گئے۔ ہماری نظر میں یہ مستعفیٰ لوگ ہیں۔ قانونی اور آئینی طور پر ان کی اسمبلی ممبر شپ صرف اسپیکر کی رولنگ پر قائم ہے۔ جو لوگ آج ایک جگہ کھڑے ہیں، ان میں سے ایک طبقہ استعفے دے کر باہر بیٹھا ہوا تھا اور دوسرا طبقہ ایوان کے اندر موجود تھا جس کا کہنا تھا کہ ان کو آنے کا موقع دیا جائے۔ آج یہ لوگ کس اخلاق کی بات کررہے ہیں۔ دھرنوں کی سیاست کرنے والوں نے سب کی تذلیل کی۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ بعض قوتیں پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتیں اور موجودہ سازش بھی اسی کا حصہ ہے۔ اس لئے وزیراعظم نواز شریف اس کے خلاف ڈٹ جائیں۔ عوام اور تمام جمہوری قوتیں ان کے ساتھ کھڑی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومیں اس طرح کے حالات سے گزرتی ہیں۔ کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ پیپلز پارٹی مجھے یہ بتائے کہ عمران خان آصف علی زرداری کے بارے میں نواز شریف سے کم الزامات لگا چکا ہے۔
آج اگر وہ دونوں ایک ساتھ کھڑے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے عمران خان کے الزامات کو تسلیم کیا یا پھر عمران خان اپنے الزامات واپس لے چکے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ نے کہا کہ اس وقت ہم اس بحران سے گزر رہے ہیں، اس میں ظاہری چیزوں کے بجائے اصل بات اور مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا، لوگوں کو حقیقت سمجھ آجائے گی۔ ویسے بھی دو دنوں میں ہی ابلتے ہوئے دیگ میں کافی ٹھنڈک محسوس کی جارہی ہے۔
ہم نے 2014ء میں ہی پارلیمنٹ کو بتادیا تھا کہ یہ دھرنے اور سازش مختلف فیزز یا مراحل میں آگے بڑھیں گی تاہم ہمیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے لئے عدالت کو استعمال کیا جائے گا۔ آج جن مقدمات کی بات کی جارہی ہے، یہ وہی پرانے مقدمات ہیں، جن پر ادارے فیصلے اور ملزمان ان اداروں کا مقدمات کا سامنا کرچکے ہیں۔ ہم آج بھی ملک کی سلامتی، روشن مستقبل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ پورے نظام اور ملکی استحکام کو سبوتاژ کرے۔
ان ہاؤس تبدیلی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ ان ہاؤس تبدیلی کیوں لائی جائے اور وزیراعظم استعفیٰ کیوں دیں؟۔ جب کہتے ہیں کہ یہ سازش ہے تو سازش کا مقابلہ کیوں نہ کیا جائے۔ جو لوگ ایوان سے مستعفیٰ ہوچکے ہیں کہ انہیں کوئی حق نہیں ہے کہ وہ وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کریں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ بات بھی درست ہے کہ کچھ سیاسی قوتیں آئندہ آنے والے سینیٹ کے انتخابات کی وجہ سے اس میں شریک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو پیپلز پارٹی آج نواز شریف کے استعفیٰ کی بات کررہی ہے وہ بتائیں کہ یوسف رضا گیلانی کے استعفیٰ کے حوالے سے ان کے جذبات کیا تھے۔ کیا اس فیصلے کو وہ درست سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اسی ایوان میں ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی فیصلے کو عدالتی قتل قرار دینے کی قرارداد منظور کی ہے۔ کیا پیپلز پارٹی یہ چاہتی ہے کہ آنے والے دنوں میں ایک مرتبہ پھر ہم ایوان میں اسی طرح کی قراردادیں منظور کریں۔ ہمارا ملک اس وقت جن مسائل کا شکار ہے،
اس میں ہم کسی غلطی اور عدم استحکام کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ کل جب دھرنوں کی شکل میں یہی عمران خان اور اس کے ساتھی سی پیک کے خلاف صف آراء تھے تو اس وقت سید خورشید شاہ جمہوریت کی بقاء کے لئے وزیراعظم کے ساتھ کھڑے تھے۔ شاہ صاحب بتائیں اس وقت ان کا موقف غلط تھا یا آج کا۔ سی پیک کے حوالے سے فوج ضامن ہے لیکن فوج بھی اس وقت کام کرسکے گی جب ملک میں سیاسی استحکام ہوگا۔
خیبرپختونخوا کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ خیبر پختونخواہ میں بڑے بڑے کرپشن کیس اسکینڈلز ہیں ان کو دبایا جارہا ہے۔ عمران خان نے اپنے ایک وزیر کو کرپشن کا الزام لگا کر وزارت سے ہٹادیا اور پھر دوبارہ شامل کیا۔ خیبرپختونخواہ میں پولیس سمیت بیشتر ادارے تباہ ہوچکے ہیں۔ دو چیف سیکریٹریز مستعفیٰ ہوئے۔ ایک نے پوری چارج شیٹ کے ساتھ اپنا استعفیٰ پیش کیا۔ غالباً دنیا کی تاریخ میں پہلی بار سرکاری افسران بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر کابینہ کے اجلاس میں شریک ہوئے۔
صوبے کو این جی اوز کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جے آئی ٹی بنانا عدالت کا کام نہیں، یہ انتظامیہ کا کام ہے لیکن یہاں بنادی گئی۔ جے آئی ٹی کی ہیئت اور اس کی رپورٹ صحیح یا غلط متاثرہ فریق ہی بتا سکتا ہے جنہوں نے نہ صرف اعتراضات کئے بلکہ ردی کا کاغذ قرار دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ عدالتی مارشل لاء کی باتیں بھی سننے میں آرہی ہیں۔ اس صورت حال میں ہم کیا سمجھیں کہ کون یہ سازش کررہا ہے۔ موجودہ بحران کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔
اس طرح کے واقعات مڈنائٹ آپریشن اور حادثے ہوا کرتے ہیں۔ ہم حادثوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے کہوں گا کہ وہ صورتحال پر غور کریں عمران خان جیسے غیر جمہوری شخص کو اتنا طاقت ور نہ بنائیں کہ وہ کل انہی پر حملہ آور ہوجائے۔ ایک سازش کے تحت وزیراعظم کو تنہا کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ جمہوری قوتیں پارلیمنٹ اور جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہیں تاہم خاندانی الزامات کا جواب متاثرہ فریق خود ہی دے گا۔