اسلام آباد(آئی این پی ) پانامہ کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی حتمی رپورٹ میں وزیراعظم نوازشریف اور ان کے صاحبزادوں حسین نواز، حسن نوازکے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کردی ،اس سلسلے میں شریف فیملی کے رہن سہن اور ذرائع آمدن میں عدم توازن کی نشاندہی کی اور کہاکہ شریف خاندان ،اثاثوں اور آمدن کے کوئی ذرائع فراہم نہ کرسکا ،
بڑی رقوم کی قرض اور تحفے کی شکل میں بے قاعدگی سے ترسیل کی گئی ،جے آئی ٹی نے نیب قوانین کے تحت شریف خاندان کو اپنی سفارشات میں مجرم تصور کیا اور کہاکہ نیلسن اور نیسکول کی بینیفشری مالک مریم نواز ہیں ،نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کی ملکیت کے دستاویزات جعلی ہیں ، آل آحلی سٹیل کی فروخت کا معائدہ جعلی ہے، نواز شریف، حسین نواز اور حسن نواز ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہے اور کمپنیز کے ذریعے رقوم کی ترسیل میں بے قاعدگی بھی پائی گئی، شریف خاندان کی رقوم میں تحائف کی شکل میں بہت بے ضابطگیاں ہیں، یف زیڈای کیپیٹل کی نوازشریف کی چیئرمین شپ ثابت ہوگئی ہے،کمپنیوں کے ذریعے پیسہ برطانیہ، سعودی عرب، پاکستان اور یو اے ای گھومتا رہا، وزیر اعظم اور ان کے بچے ذرائع آمدن ثابت نہ کر سکے اس لئے مجرم تصور کئے جائیں۔ پیر کو میڈیا رپورٹس کے مطابق جے آئی ٹی نے وزیراعظم محمد نوازشریف اور ان کے صاحبزادوں حسین نواز اور حسن نوازکے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کی ہے اور کہا ہے کہ بڑی رقوم کو قرض یا تحفے کی صورت میں دینے سے متعلق بیقاعدگیاں پائی گئی ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس رقم سے وزیر اعظم کے علاوہ ان کے دونوں بیٹے حسن نواز اور حسین نواز مستفید ہوئے اس لیے اس معاملے کو قومی احتساب بیورو میں بھیجا جائے۔ نوازشریف ،حسن نواز اور حسین نواز کا رہن سہن ذرائع آمد سے متصادم ہے ، مالی معاملات کا معاملہ نیب کے سیکشن 9میں آتا ہے ۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ شریف خاندان ،اثاثوں اور آمدن کے کوئی ذرائع فراہم نہ کرسکا ، بڑی رقوم کی قرض اور تحفے کی شکل میں بے قاعدگی سے ترسیل کی گئی ۔ جے آئی ٹی نے نیب قوانین کے تحت شریف خاندان کو اپنی سفارشات میں مجرم تصور کیا ہے۔ نیلسن اور نیسکول کی بینفشری مالک مریم نواز ہیں ۔ نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کی ملکیت کے دستاویزات جعلی ہیں ۔
برطانیہ میں ان کے کاروبار سے کئی آف شور کمپنیز بھی لنک ہیں ۔ جے آئی ٹی کے مطابق لندن کی ہل میٹل اور یو اے ای کی کیپیٹل ایف زیڈ ای کمپنیوں سے ترسیلات کی گئیں ۔ پاکستان میں موجود کمپنیوں کا مالیاتی ڈھانچہ مدعاعلیہان کی دولت سے میچ نہیں کرتا ۔ برطانیہ میں کسی کاروبار سے نہیں خریدی گئیں ۔ قانون شہادت کی روسے بار ثبوت شریف خاندان پر تھا۔ کمپنیوں نے سعودی عرب سے بڑے قرضے حاصل کئے ۔
سعودی عرب سے قیمتی تحائف بھی ملے ۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق آف شور کمپنیوں کا کردار بہت اہم ہے ۔ آف شور کمپنیوں کو برطانیہ رقوم منتقل کرنے کیلئے استعمال کیا گیا ۔ منتقل رقوم سے برطانیہ میں جائیدادیں خریدی گئیں ، ایف زیڈای کیپیٹل کی نوازشریف کی چیئرمین شپ ثابت ہوگئی ہے ۔ ڈیکلیریشن آف ٹرسٹ سے متعلق خود ساختہ رپورٹس جمع کرائی گئیں ۔
جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ شریف خاندان نے سپریم کورٹ میں جعلی ٹرسٹ ڈیکلیریشن جمع کرائے ۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق 2001،2002 میں دبئی سے جدہ کسی قسم کا کوئی سکریپ نہیں بھیجا گیا ،الانا سروسز، لنکن ایس اے اور ہلٹن انٹرنیشنل سروسز بھی شریف خاندان کی ملکیت ہیں،طارق شفیع بی سی سی آئی کے 9 ملین درہم کے ڈیفالٹر تھے،14 اپریل 1980 کو گلف سٹیل مل کی فروخت کا کوئی ریکارڈ نہیں ملا،
1980 میں ال آحلی سٹیل کے 25 فیصد شیئرز کی فروخت کا ریکارڈ نہیں، آل آحلی سٹیل کی فروخت کا معائدہ جعلی ہے، نواز شریف، حسین نواز اور حسن نواز ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہے اور کمپنیز کے ذریعے رقوم کی ترسیل میں بے قاعدگی بھی پائی گئی، شریف خاندان کی رقوم میں تحائف کی شکل میں بہت بے ضابطگیاں ہیں، کمپنیوں کے ذریعے پیسہ برطانیہ، سعودی عرب، پاکستان اور یو اے ای گھومتا رہا، وزیر اعظم اور ان کے بچے ذرائع آمدن ثابت نہ کر سکے اس لئے مجرم تصور کئے جائیں۔