لندن(آئی این پی)ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسکاٹش اسکولوں میں مسلمان طلبا کو دہشت گرد اور داعش کہا جانے لگا ہے جبکہ بعض لڑکیوں کا حجاب ان کے کلاس فیلوز نے ہی کھینچ کر پھاڑ دیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایڈنبرا میں 100پرائمری طلبا سے کئے گئے پول میں بتایا گیا کہ طلبہ یہ محسوس نہیں کرتے کہ ان کے اسکولوں کی جانب سے اسلاموفوبیا کے ان واقعات کے خاتمے کے لئے کوئی اقدام کیا گیا۔
تشویشناک صورت حال اس وقت سامنے آئی جب اسکاٹش پارلیمنٹ میں ہراساں کئے جانے پر ثبوت پیش کرنے کے سیشن کی دوران ایڈنبرا کی ایک ماں ثمینہ ڈین نے شرکت کی۔انہوں نے اپنی دو لڑکیوں کو مسلم مخالف بنیاد پر ہراساں کئے جانے کے بعد سروے کیا تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ صورتحال معاشرہ میں کس حد تک سرایت کرگئی ہے۔مسز ڈین نے پی5سے ایس6تک 100شاگردوں سے بات کی کہ وہ خود کے ساتھ پیش آنے والے واقعات بتائیں۔ 6فیصد سیکنڈری کی طالبات اور پرائمری کی 14فیصد طالبات نے بتایا کہ وہ مذہب سے تعلق کی بنیاد پر جسمانی زیادتی سے متاثر ہوئیں۔دو تہائی نے بتایا کہ انہوں نے زیادتی کے بارے میں ٹیچرز کو آگاہ نہیں کیا اور جو طالبات پہلے ہی واقعہ کے بارے میں ٹیچرز کو آگاہ کرچکی تھیں ان میں سے صرف 43فیصد کو مثبت نتائج ملے۔رپورٹ میں زیادہ حوصلہ افزائی کے تجربات پر بھی روشنی ڈالی گئی جہاں 57فیصد نے اپنی ٹیچرز سے عمومی طور پر اسلام کے بارے میں گفتگو کی تو انہیں مثبت احساس ہوا۔مسز ڈین کا کہنا تھا کہ کوئی بھی پیرنٹ یہ نہیں چاہتا کہ ان کے بچے کو اسلامو فوبیا کے تجربہ کا سامنا کرنا پڑے تاہم جب میری بیٹی کو سکول پر ایسے تجربہ کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے مجھ سے سوال کیا کہ یہ صورت حال اتنی کیوں پھیل گئی ہے۔ بعض تجربات سن کر بالخصوص جسمانی زیادتی کیکہانیاں سن کر دل شکنی ہوئی۔مسز ڈین نے کہا کہ اس صورتحال کے نتیجے میں مسلمان بچوں کو اپنے روزمرہ کے معمولات کی ادائیگی کے دوران دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔یوکے اسلام ہیومن رائٹس کمیشن پر ریسرچ کی سربراہ ازرو میرالی نے اس سروے کا خیر مقدم کیا۔