مروجہ تفاسیر میں حضرت الیاس علیہ السلام کا سب سے مبسوط تذکرہ تفسیر مظہری میں علامہ بغوریؒ کے حوالہ سے کیا گیا ہے۔ اس میں جوواقعات مذکور ہیں وہ تقریباً تمام تر بائبل سے ماخوذ ہیں، دوسری تفسیروں میں بھی ان واقعات کے بعض اجزاء حضرت وہب بن منبہؒ اور کعب الاحبارؒ وغیرہ کے حوالہ سے بیان ہوئے ہیں جو اکثر اسرائیلی روایات نقل کرتے ہیں۔ان تمام روایات سے خلاصہ کے طور پر جو قدر مشترک نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت الیاس علیہ السلام نے اسرائیل کے بادشاہ اخی اب اور اس کی رعایا کو بعل نامی بت کی پرستش سے روک کر توحید کی دعوت دی،
مگر دو ایک حق پسند افراد کے سوا کسی نے آپ کی بات نہیں مانی، بلکہ آپ کو طرح طرح سے پریشان کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ اخی اب اور اس کی بیوی ایزبل نے آپ کو شہید کرنے کے منصوبے بنائے۔ آپ نے ایک دور افتادہ غار میں پناہ لی، اور عرصہ دراز تک وہیں مقیم رہے، اس کے بعد آپ نے دعاء فرمائی، کہ اسرائیل کے لوگ قحط سالی کا شکار ہوجائیں، تاکہ اس قحط سالی کو دور کرنے کے لیے آپ ان کو معجزات دکھائیں تو شاید وہ ایمان لے آئیں، چنانچہ انہیں شدید قحط میں مبتلا کردیا گیا۔اس کے بعد حضرت الیاس علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے اخی اب سے ملے اور اس سے کہا کہ یہ عذاب اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے ہے، اور اگر تم اب بھی باز آجاؤ تو یہ عذاب دور ہوسکتا ہے۔ میری سچائی کے امتحان کا بھی یہ بہترین موقع ہے۔ تم کہتے ہو کہ اسرائیل میں تمھارے معبود بعل کے ساڑھے چار سو نبی ہیں، تم ایک دن ان سب کو میرے سامنے جمع کرلو، وہ بعل کے نام پر قربانی پیش کریں، اور میں اللہ کے نام پر قربانی کروں گا، جس کی قربانی کو آسمانی آگ آکر بھسم کردے گی، اس کا دین سچا ہوگا، سب نے اس تجویز کو خوشی سے مان لیا۔چنانچہ کوہ کرمل کے مقام پر یہ اجتماع ہوا، بعل کے جھوٹے نبیوں نے اپنی قربانی پیش کی، اور صبح سے دوپہر تک بعل سے التجائیں کرتے رہے، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ اس کے بعد حضرت الیاس علیہ السلام نے اپنی قربانی پیش کی، اس پر آسمان سے آگ نازل ہوئی، اور اس نے حضرت الیاس علیہ السلام کی قربانی کو بھسم کردیا،
یہ دیکھ کر بہت سے لوگ سجدے میں گر گئے، اور ان پر حق واضح ہوگیا، لیکن بعل کے جھوٹے نبی اب بھی نہ مانے، اس لیے حضرت الیاس علیہ السلام نے ان کو وادی قیثون میں قتل کرادیا۔اس واقعہ کے بعد موسلا دھار بارش بھی ہوئی اور پورا خطہ پانی سے نہال ہوگیا، لیکن اخی اب کی بیوی ایزبل کی اب بھی آنکھ نہ کھلی، وہ حضرت الیاس پر ایمان کے بجائے الٹی ان کی دشمن ہوگئی اور اس نے آپ کو قتل کرانے کی تیاریاں شروع کردیں۔ حضرت الیاس علیہ السلام یہ سن کر پھر سامریہ سے روپوش ہوگئے،
اور کچھ عرصہ کے بعد بنی اسرائیل کے دوسرے ملک یہودیہ میں تبلیغ شروع کردی، کیونکہ رفتہ رفتہ بعل پرستی کی وبا وہاں بھی پھیل چکی تھی۔ وہاں کے بادشاہ یہورام نے بھی آپ کی بات نہ سنی یہاں تک کہ وہ حضرت الیاس علیہ السلام کی پیشنگوئی کے متعلق تباہ وبرباد ہوا چند سال بعد آپ دوبارہ اسرائیل تشریف لائے اور یہاں پھر اخی اب اور اس کے بیٹے اخزیاہ کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی، مگر وہ بدستور اپنی بداعمالیوں میں مبتلا رہے، یہاں تک کہ انہیں بیرونی حملوں اور مہلک بیماریوں کا شکار بنا دیا گیا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو واپس بلا لیا۔
( معارف القرآن جلد۷ صفحہ۴۷۱، سورۂ صٰفّت: آیت۱۲۳)