جمعرات‬‮ ، 26 دسمبر‬‮ 2024 

’’عید کے کپڑے ‘‘

datetime 12  جون‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

گھر والے کئی دنوں سے کہہ رہ تھے کہ آپ عید کا کوئی اچھا ساسوٹ سلوا لیں ،پھر دن کم رہ جائیں گے تو ایک تو سوٹ مہنگا بہت ملے گا اور دوسرا درزی اتنی جلدی سی کر بھی نہیں دے گا،کوئی منہ ملاحضہ والا ہوا بھی توسلائی ڈبل لے گا۔ ایک تو روزہ،اوپر سے گرمی کا زور،پھر کاموں کی مصروفیت نے مجھے بازار جانے نہیں دیا۔غالباً 20 ویں روزے میں نے جیب میں 2 ہزار روپے ڈالے کہ بازار جا کر سوٹ خرید لائوں لیکن رات تک نہ جاسکا۔

نماز تراویح سے فارغ ہو کر واک پر جاتےہوئےمیرے دوست راشد بشیر نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا ، سرجی آپ نے عید کا سوٹ سلوا لیا ہے؟ میں نےہنس کر کہا ،کیوں آپ نے سلوا کر دینا ہے؟ وہ جواب میں کہنے لگا، یار !آج میں اپنےگھر اندر کمرے میں لیٹا ہوا تھا باہر صحن میں ہماری ایک جاننے والی امی جان کے پاس آئی تھی۔اس کے خاوند کا اچھا خاصا کاروبار تھا۔عزت و آبرو سے زندگی گزررہی تھی ۔! امی جان سے چپکے چپکے باتیں کرتے ہوئے کہہ رہی تھی ، خالہ جان جب سے میرے خاوند کو کینسر ہوا ہے چارپائی پر پڑا ہے،سارا مال اسباب علاج پر خرچ ہوگیا۔اوپر سے عید آئی ہے، بچوں کے پہننے کو نیا تو کیا کوئی پرانا سوٹ بھی باقی نہیں بچا۔آپ استعمال شدہ دو تین سوٹ دے دیں میں کاٹ کر چھوٹے کرکے بچوں کو پہنا دوں گی۔ امی جان نے مجھ سے آکر پوچھا کہ کوئی استعمال شدہ سوٹ ہیں ،کسی کو دینے ہیں،اور بوجھل دل سے ساری بات دوبارہ سنادی۔ میں نے کہا امی جان اسے کہہ دیں کل تک انتظار کر لے ،کچھ کرتا ہوں۔ پھرراشد مجھ سے کہنے لگا! یاربیگم کے کہنے پر میں نے آج ہی بینک سے اپنے عید کے سوٹ کے لیے پیسے نکلوائے تھے ،اب سوچ رہا ہوں کہ یہ پیسے اس عورت کو دے دوں ،تم کیا کہتے ہو؟

راشد کی بات سن کر،میں نے کچھ کہے بغیراپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور 2 ہزار روپے نکال کراس کے ہاتھ پر رکھ دئیے۔ دن پر دن گزرتے گئے ،گھر والوں کے پوچھنے پر میں نے کہہ دیا کہ ہاں سوٹ سلنے کے لیے دے آیا ہوں دعا کریں عید تک مل جائے۔وہ تھوڑی سے ناراضگی کے بعد چپ کرگئے۔میں نے سوچا عید پر بہانہ کردوں گا کہ درزی نے سی کر نہیں دیا۔خیر عید والی رات بھی آگئی،بچوں کے سوٹ تیار کرتے ہوئے بیگم نے پھر کہنا شروع کردیا کہ آپ کا سوٹ نہ آنا تھا نہ آیا،

کتنی بری بات ہے،عید پر کیا پہنیں گے؟ میں اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔رات 8بجے دروازے پر دستک ہوئی ،میں نےجاکردیکھا تو میرادرزی امجد ایک شاپر میں نئے کپڑوں کا ایک جوڑا لیے کھڑا تھا ۔میں نے پوچھا تو کہنے لگا، سرجی ! آپ نے کافی عرصہ پہلے مجھے تین سوٹ سلنے کے لیے دیے تھے۔ان میں سے ایک مجھ سے استری کرتے ہوئے جل گیا تھا۔میں نے آپ کو بتایا نہیں ،

آپ نے بھی نہیں پوچھا اور بھول گئے۔میں نے سوچا عید پراور کپڑا ڈال کر آپ کو سوٹ سلائی کرکے دےدوں گااور ساتھ ہی معافی بھی مانگ لوں گا۔یہ میری طرف سے معذرت کے ساتھ قبول فرمالیں۔ یہ کہہ کر وہ میرا عید کا سوٹ دے کرچلا گیا ۔ میں نے تشکر بھری ڈبڈباتی آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا۔ مجھے یوں لگا دور آسمانوں پر کوئی مجھے دیکھ کر مسکرا رہاہے۔۔

موضوعات:



کالم



کرسمس


رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…