لاہور(آئی این پی) صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ شر یف خاندان جے آئی ٹی کے بائیکاٹ کا حق رکھتا ہے اگر پارٹی نے جے آئی ٹی کیخلاف تحریک چلائی تو میں سب سے آگے ہوں گا ‘ اگر جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ سے پہلے دو ممبران کے ماضی ‘ سیاسی وابستگی ،گواہوں پر دباؤ ڈال کر شریف فیملی کیخلاف بیان لینے اورحسین نواز کی تصویر کی لیکج کے حوالے سے اطمینان بخش جوابات نہ آئے
تو اس سے سیاست اور حالات میں سنسنی پھیلے گی اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال ملک کیلئے بہتر نہیں ہو گی ،پی ٹی آئی کا مستقبل جہنم واصل ہو چکا ہے ، اگر کرپٹ لوگوں کا تناسب دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری ہے اور پیپلز پارٹی آہستہ آہستہ گند صاف ہونے سے پاک ہو رہی ہے ‘ نہال ہاشمی نے جو بیان دیا ہے وہ کسی طرح بھی دفاع کے قابل نہیں لیکن دوسری طرف میں سوال رکھ رہا ہوں جاوید ہاشمی موجود ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ عمران خان نے جوڈیشل کو کی بات کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ ہمارے ساتھ ملی ہوئی ہے او رجب دھرنا ہو گا تو جوڈیشل کو ہوگا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ جوڈیشل کو کا لفظ استعمال ہوا ۔ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ جاوید ہاشمی کو بلائے ۔ پنجاب اسمبلی کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ عمران خان اپنے عمل اور سیاست سے عوام میں پوری طرح ایکسپوز ہو گئے ہیں اور 2018ء کے انتخابات میں عوام کی طرف سے الزام تراشی ، افراتفری اور فتنہ و فساد کی سیاست کو مسترد کرنے پر صرف مہر لگانا باقی ہے اور ملک سے عمران خان ، مکار مولوی اور راولپنڈی کے شیطان کی سیاست کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ میری اطلاع کے مطابق حسین نواز نے تصویر لیکج کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے اور وہ اس کی وضاحت چاہتے ہیں
اور عوام بھی ان باتوں کا جواب چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے ضرور بنائی ہے لیکن جے آئی ٹی یا اس کے ممبران کو قطعاًسپریم کورٹ یا اس کے معزز ججزکی طرح استحقاق یا تحفظ حاصل نہیں ۔انہوں نے کہ یہ باتیں سامنے آئی ہیں کہ جے آئی ٹی میں پیش ہونے والے گواہان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ شریف فیملی کے خلاف بیان دیں اگر یہ اتنا بڑا اعتراض موجود ہے تو پھر سپریم کورٹ کیسے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتماد کر سکتی ہے ۔ حسین نواز کی تصویر کی لیکج والے معاملے کا مقصد صرف شریف فیملی کی تضحیک ہے اور جن لوگوں نے اسے ٹوئٹ کیا وہ پی ٹی آئی کے لیڈر تھے اور اس پر عوام میں انتہائی اضطراب پایا جاتا ہے اور کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ لوگ اس سے لا تعلق رہیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ اب تک جو چیزیں سامنے آئی ہیں اس کے مطابق جے آئی ٹی غیر جانبدار نہیں ہے اور جو اعتراضاات اٹھائے جارہے ہیں ان کا جواب دیا جانا چاہیے ۔
انہوں نے جے آئی ٹی میں پیش نہ ہونے اور بائیکاٹ کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ اس کا فیصلہ شریف فیملی نے کرنا ہے کیونکہ وہ اس صورتحال کا سامنا کررہی ہے کہ کس مرحلے پر کس انداز میں معاملات کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں ۔ واٹس ایپ،دو ممبران کے ماضی ‘ وابستگی او رجو تصویرلیکج ہوئی اس میں کڑی سے کڑی ملتی جارہی ہے ۔ یہ جے آئی ٹی براہ راست سپریم کورٹ کی زیر نگرانی ہے اس لئے ہماری استدعا سپریم کورٹ سے ہے کہ اس کا نوٹس لیا جانا چاہیے کیونکہ حکومت یا کوئی ادارہ کوئی نوٹس نہیں لے سکتا ۔انہوں نے کہا کہ روزے کی حالت میں 13،13گھنٹے تفتیش کہاں کا طریق کار ہے ۔ ماڈل ٹاؤن کے معاملے پر جو جے آئی ٹی بنی تھی اس میں وزیر اعلیٰ اور میں خود پیش ہوئے تھے لیکن اس وقت یہ ماحول نہیں تھا ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کا مستقبل راولپنڈی کے شیطان سے ذرا مختلف نہیں ہوگا اور عوام ان سے ان کی منافقت کا حساب لیں گے۔ اگر پی ٹی آئی اور پی پی میں کرپٹ لوگوں کا تناسب دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری ہے اور پیپلزپارٹی کا گند آہستہ آہستہ صاف ہونے سے وہ پاک ہو رہی ہے ۔
ایک روز پہلے بھی جو گند پی ٹی آئی میں شامل ہوا ہے اس سے پی ٹی آئی کا پلڑا مزید بھاری ہو گیا ہے۔ انہوں نے بلاول بھٹو کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ بی بی بلاول کو پتہ نہیں جب ان کے والد جیلیں کاٹ رہے تھے تو ان سے چلا نہیں جاتا تھا اور وہ گردن میں کالر لگا کر لاٹھی کے سہارے چلتے تھے ، اس وقت محترمہ بینظیر بھٹو عدالتوں بارے کیا باتیں کرتی تھیں ؟۔ہم سپریم کورٹ کے خلاف نہیں بلکہ جے آئی ٹی کے ممبران کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہال ہاشمی نے جو بیان دیا ہے وہ کسی طرح بھی دفاع کے قابل نہیں
لیکن دوسری طرف میں سوال رکھ رہا ہوں کہ جاوید ہاشمی موجود ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ عمران خان نے جوڈیشل کو کی بات کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ ہمارے ساتھ ملی ہوئی ہے او رجب دھرنا ہو گا تو جوڈیشل کو ہوگا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ جوڈیشل کو کا لفظ استعمال ہوا ۔ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ جاوید ہاشمی کو بلائے ، جاوید ہاشمی کہتے ہیں کہ میں ثابت کروں گاکہ عمران خان نے یہ بات کہی تھی اگر میری بات جھوٹی ہو تو میں سزا لینے کیلئے تیار ہوں اور اگر ثابت ہو جائے تو عمران خان سے پوچھا جانا چاہیے ۔