ماحول کے اثر کے متعلق حضرت شیخ الحدیثؒ ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیں: ’’اسی کے ساتھ ایک دوسرا قصہ بھی میں نے اپنے والد صاحب سے کئی مرتبہ سنا کہ جب ’’نہرجمن‘‘ کھودی جا رہی تھی، جو رائے پور سے لے کر سہارنپور، کاندھلہ ہوتی ہوئی دہلی تک پہنچی ہے تو نانوتہ کے قریب زمین کھودتے ہوئے زمین کے اندر سے سونے کی ایک بہت لمبی، بہت موٹی سری نکلی جو مزدوروں نے سقہ کو دے دی،
جو وہاں پانی ڈالا کرتا تھا اور وہی کل مزدوروں کا گویا چوہدری یا امیر تھا۔ اس سقے نے دو مزدوروں کو لے کر اسے اٹھا لیا اور قریب ہی ایک انگریز کا ڈیرا تھا جو گویا اس سارے کاروبار کا افسر اعلیٰ تھا اور ٹھیکیدار تھا، اس کو لے جا کر دی، اس نے اس کو رکھ لیا اور اس کا اندراج کر لیا، مگر ان مزدوروں پر اور سقے پر بہت تعجب کرتا رہا کہ اتنی بڑی دولت ان کو ملی، آپس میں بانٹ لیتے تو خبر بھی نہ ہوتی، بیس، پچیس سال کے بعد جبکہ یہ انگریز مظفر نگر کا کلکٹر بنا، اس کی عدالت میں یہ مقدمہ پیش ہوا کہ ایک سقے نے ایک کمسن بچی کے کان میں گلٹ کی بالیاں تھیں، اس سقہ نے سونے کی سمجھ کر اس لڑکی کو قتل کر کے کنویں میں ڈال دیا اور بالیاں نکال لیں۔ یہ سقہ پیش ہوا اور اس نے اقرار بھی کر لیا، اس کلکٹر نے اس کو پہچان لیا اور اس سے دریافت کیا کہ تو وہی سقہ ہے جو ’’جمن‘‘ کی کھدائی میں تھا اور سونے کی سری واپس کر دی تھی، اس نے اس کا بھی اقرار کیا۔ کلکٹر نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ ’’اس وقت ہمارے ذہن میں یہ تھا کہ دوسروں کی چیز نہیں لی جا سکتی، اس کو ہم سور کھانے سے زیادہ برا سمجھتے تھے اور آج کل یوں ہے کہ جو مل جاوے وہ اپنا ہی ہے‘‘۔ کلکٹر نے مقدمہ کو یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ ’’یہ ہماری حکومت کا اثر ہے اس کا قصور نہیں‘‘۔