احسان دانش کہتے ہیں کہ شروع شروع میں میری اہلیہ دنیا کے رسم و رواج اور آئین و ضوابط سے صرف اتنی بہرہ مند تھی کہ ایک دفعہ نجانے کس بات پر میں نے تنبیہ کی مگر اس کی حاضر جوابی پر اس قدر غصہ آیا کہ میرے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا ’’میرے ساتھ تمہارا نباہ مشکل ہو گا، میرا پیچھا چھوڑ اور اپنی راہ لو‘‘ اس نے میری برہمی سے بے پروا ہو کر لمحہ بھر کے توقف سے جواب دیا۔ ’’اچھا میں ابھی
اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاؤں گی، خدا رکھے میری ماں اور میرے بھائی موجود ہیں۔ آپ میرا مہر معاف کرا دیں‘‘۔ میرا یہ سننا تھا کہ غم و غصہ فرو ہو گیا، مسکراتا ہوا باہر نکل آیا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ اس دور میں مجھے خدا نے کیسی شریک حیات عطا فرمائی ہے جو یہ بھی نہیں جانتی کہ مہر کی ادائیگی کس کافرض ہے اور اس کی طلبی و معافی بیوی کی طرف سے ہوتی ہے یا شوہر کی طرف سے۔