مدینہ منورہ (مانیٹرنگ ڈیسک)مسجد نبوی کی محرابیں خلافت راشدہ کے اختتام کے بعد سے تیسری سعودی حکومت کے آغاز تک ، اسلامی اور سیاسی جدل کا موضوع بنی رہی تھیں۔ سعودی حکومت کے سامنے مسجد نبوی میں چھ محرابیں تھیں جس کے بعد اس نے تمام نمازیوں کو ایک محراب پر متحد کرنے کا فیصلہ کیا۔العریبہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق تاریخ کے سعودی محقق کا کہنا ہے کہ ” موجودہ محراب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نسبت سے محرابِ عثمانی کہلاتی ہے۔
انہوں نے یہ محراب مسجد کی جنوبی سمت (قبلے کی جانب) تجدید کے دوران بنائی۔ اس سے قبل حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی جنوبی سمت تجدید کروائی تھی۔ مسجد نبوی کی جنوبی سمت صرف دو مرتبہ تجدید ہوئی ہے جو کہ خیلفہ دوم اور خلیفہ سوم کے دور خلافت میں ہوئی۔ محرابِ عثمانی وہ واحد محراب ہے جس میں مسجد نبوی شریف کے آئمہ کرام حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور سے لے کر آج تک نماز پڑھا رہے ہیں”۔تیرہ سو سال سے زیادہ مدت کے اس سفر میں اسلامی حکمرانوں کی جانب سے مسجد نبوی کی محرابوں کی تزئین و آرائش کا کام جاری رہا۔ ہر حکمراں کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ اس کا نام تاریخ میں کسی طور مسجد نبوی کے خادم کی حیثیت سے باقی رہے۔سعودی محقق کے مطابق ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس جگہ قیام فرما کر نماز پڑھاتے تھے یا پڑھتے تھے وہاں محراب میں خلاء (پیٹ) نہیں ہوتا تھا۔ یہ جگہ معروف تھی جس پر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے 88 ہجری کے بعد اس مقام پر محراب کے اندر خلاء (پیٹ) بنوا دیا”۔سعودی ریاست نے مسجد نبوی کی محرابوں کو ناموں کے ساتھ برقرار رکھا اور ساتھ ہی ان کی خصوصی دیکھ بھال پر توجہ دی۔ اس کے علاوہ ہر محراب کے تعمیراتی پس منظر اور ہیئت ساتھ ساتھ اس کے بارے میں تمام تر تاریخی معلومات کو بھی محفوظ رکھا گیا۔سعودی محقق کا کہنا ہے کہ ” محراب ِ نبوی یا ریاض الجنہ کے دائیں جانب جو محراب ہے اس کا نام محرابِ سلیمانی ہے۔ یہ نویں صدی ہجری میں بنائی گئی جس کو بعض عثمانی خلفاء نے اہمیت دی۔ ابتدائی تین صدیوں میں اس کا کوئی وجود نہ تھا اس واسطے اس کی کوئی خاص فضیلت نہیں ہے”۔محراب نبوی ریاض الجنہ میں ، اذان کے مقام (مکبریۃ) کے قریب ترین واقع ہے۔ نماز کی پُکار کے لیے مکبریۃ کا وجود ، فرماں رواؤں کے دور سے لے کر آج تک قائم ہے۔