حضرت مولانا محمد انعام الحق قاسمی بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سفر کررہے تھے، موٹر وے پرچڑھے تو چند میلوں کے بعد میں نے ڈرائیورکو دیکھا تو وہ بڑا پریشان تھا، وہ کبھی دیکھتا تھا کبھی ادھر، میں نے اس سے پوچھا:جی کیاہوا؟ وہ کہنے لگا: حضرت! بس آپ توجہ فرماتے رہیں، اللہ کرم کرے گا، اللہ عزت رکھے گا، میں نے کہا کہ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ آپ کی عزت رکھے، اس نے گاڑی خوب تیز بھگائی ہوئی تھی،
پچاس کلومیٹر کے بعد گیس اسٹیشن آیا، اس نے گاڑی گیس اسٹیشن کے اندر داخل کی اور کہا: الحمدللہ، الحمدللہ، میں نے کہا، کیابنا؟ وہ کہنے لگا: اللہ نے عزت رکھ لی میں نے کہا پھر بھی بتاؤ تو صحیح کہ اللہ نے کیسے عزت رکھی؟ کہنے لگا: حضرت! میں آپ کو بٹھانے سے پہلے جہاں سے آ رہا تھا ادھر سے ہی میری گاڑی کو پٹرول ریزرو لگ گیاتھا اور میں نے سوچا تھا کہ میں گھر جاتے ہوئے راستے میں ہی کہیں سے پٹرول ڈلوا لوں گا لیکن میں بھول گیا، پھر آپ کا سفر تھا آپ کوبھی بٹا لیااور موٹر وے پرآ گیا، جب میری نظر میٹرپر پڑی تو میں نے دیکھا کہ گاڑی ریزرو کے دوران جتنے میل چلتی ہے اس سے ڈیڑھ گنا میل پہلے ہی چل چکی ہے، لہٰذا اب یہ کہیں بھی بند ہو سکتی ہے اور جب موٹر وے کے درمیان میں گاڑی بند ہوگئی تو پیر صاحب ناراض ہوں گے اورکہیں گے کہ تو ایسا بے وقوف اور غافل آدمی ہے،وہ کہنے لگاکہ یہ خیال آتے ہی میں نے اپنے دل میں یہ دعا مانگی ’’اے اللہ! میں نے تیرے ایک نیک بندے کوآگے بٹھایاہواہے، تو اس کو پریشانی سے بچا لے اور میری عزت کومحفوظ فرما لے، مجھے رسوا نہ کرنا، غلطی کر بیٹھا ہوں۔‘‘میں نے یہ دعا کرکے اسپیڈ پرپاؤ رکھ لیا، پہلے میں 60-70 کلومیٹر کی سپیڈ پر جا رہا تھا پھر میں 120 کلومیٹر کی سپیڈ پرچل پڑا، اور 120 کلومیٹر کی سپیڈ پر تب چلا جب مجھے پتہ چلا کہ اندر کچھ نہیں ہے اور میرا خیال تھا کہ میں بمشکل پانچ دس کلومیٹر چلوں گا،حتیٰ کہ پچاس کلومیٹر چلنے کے بعد گیس اسٹیشن آیا اور میں نے الحمدللہ کہا۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔ جو بندہ اللہ رب العزت کے سامنے یوں عذر پیش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ضرور سرخرو فرماتے ہیں۔
امام زین العابدین کے حالات زندگی میں ہے کہ فوت ہوئے تو غسل دینے والوں نے دیکھا کہ ان کے دائیں کندھے پر کالا نشان بنا ہواہے،بڑے خوبصورت تھے، نازک بدن تھے، اس کو بڑی حیرانی ہوئی یہ نشان کیسا؟ اس نے لوگوں سے پوچھاگھر والوں نے کہا ہمیں بھی معلوم نہیں ہم سے بھی چھپایا انہوں نے، کسی کو پتہ نہ چلا لیکن جب ان کو دفنایا گیا تو ہفتہ، عشرہ گزرنے کے بعد جو اس وقت نادار تھے، معذور تھے، بیوائیں تھیں ان کے گھروں سے آواز آئی ہائے وہ کہاں گیا، جو رات کے اندھیرے میں ہمارے گھروں میں پانی پہنچایا کرتاتھا، تب یہ راز کھلتا ہے کہ وہ مشک لے کر رات کے اندھیرے میں ان مجبور لوگوں کے گھروں میں پانی پہنچایا کرتے تھے، مگراتنی خاموشی سے کیا کہ زندگی بھر اس بات کا علم کسی کو نہ ہونے دیا۔