اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)دنیا میں صرف دو ہائی رینک کے حامل جاسوس پکڑے گئے جن کو بہت زیادہ شہرت حاصل ہوئی جن میں دوسرے نمبر پر بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو ہے۔ کلبھوشن جو ایران کے علاقے چاہ بہار میں مبارک حسین پٹیل کے فرضی نام سے ایک درمیانے درجے کے بھارتی کاروباری شخص کی حیثیت سے پاکستان میں اپنی دہشتگردانہ سرگرمیوں کو
جاری رکھنے کیلئے اپنا مستقر بنا کر بیٹھا ہوا تھا۔ دہشتگردی کے خلاف قومی اتفاق رائے سے پاکستان میں پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا، آپریشن ضرب عضب کا مقصد پاک وطن کے ان علاقوں کا کنٹرول دوبارہ سنبھالنا تھا جو کہ دہشتگردوں کے کنٹرول میں جاچکے تھے جہاں سے بیٹھ کر وہ وطن عزیز میں خوفناک خون کی ہولی کھیل رہے تھے۔ سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے مشترکہ طور پر اس عزم کا اظہار کیا کہ دہشتگردوں کے خلاف فوجی آپریشن ناگزیر ہو چکا ہے جس کے نتیجے میںحکومت نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر کمان پاک فوج کو دہشتگردوں پر ٹوٹ پڑنے اور ملک کے چپے چپے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کا ٹاسک سونپا جسے پاک فوج نے ضرب عضب کا نام دیتے ہوئے دہشتگردوں کو نیست و نابود کرنے اور وطن عزیز کے ہر علاقے کو ان سے پاک کرنے کا فریضہ سر انجام دیا۔ پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں کیلئے بھارت کی جانب سے متعین ایران میں بیٹھا بھارتی جاسوس کلبھوشن اس صورتحال سے بوکھلا گیا، اسے اپنے تمام منصوبے جن میں بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کو مضبوط کرنا، ملک میں فرقہ واریت کے فروغ کیلئے کوئٹہ میں ہزارہ قبیلہ کو نشانہ بنانا اور سی پیک کو ناکام بنانا شامل تھے بری طرح
فلاپ ہوتے نظر آئے۔ اپنے آقائوں سے نئی ہدایت لے کر کلبھوشن نے پاکستان میں داخل ہو کر دہشتگردوں کو ایکٹی ویٹ کرنے کا پلان بنایا مگر پاک وطن کی دھرتی پر اپنے ناکام قدم رکھتے ہی دھر لیا گیا۔ اس نے گرفتاری کے بعد اپنے اعترافی ویڈیو بیان میں وطن عزیز کیخلاف اپنے ناپاک منصوبوں اور جرائم کا اعتراف کیا، بھارتی نیول آفیسر ہونے کی وجہ سے اس کے خلاف
پاکستان میں فیلڈ کورٹ مارشل کی کارروائی عمل میں لائی گئی اور اس کے جرائم ثابت ہونے کے بعد اسے سزائے موت سنا دی گئی ۔ کلبھوشن کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد بھارت پاگل ہو گیا جس نے اسے اپنا شہری ہونے سے انکار کر دیا وہ اسے اپنے ملک کا بیٹا تسلیم کرتے ہوئے اس تک قونصلر رسائی مانگنے لگ گیا۔ کلبھوشن کی کہانی کیا نیا موڑ لیتی ہے یہ تو آنے والا
وقت بتائے گا مگر قارئین کیلئے اس پہلے اعلیٰ رینک کے روسی افسر جاسوس کا ذکر ضروری ہے جو کہ کلبھوشن سے قبل جاسوسی کے الزام میں امریکہ میں پکڑا گیا اور عالمی شہرت حاصل کی۔ آکا روڈلف ایبیل ولیم فشر کے نام سے 1948میں امریکہ میں براستہ کینیڈا داخل ہوا۔ یہ سابقہ سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی میں کرنل کے عہدے پر فائز تھا۔ اسے امریکہ کے ایٹمی راز
چرانے اور اسے سوویت یونین تک بہم پہنچانے کا کام سونپا گیا۔ ایبیل نے امریکہ میں 9سال جاسوسی کی۔ یہ وہاں فوٹوگرافر اور مـصور کی حیثیت سے رہا۔ مشکوک سرگرمیوں پر یہ امریکی خفیہ اداروں کی نظروں میں آیا اور پکڑا گیا۔ 1957میں اسے اس کے جرائم پر 30سال قید کی سزا سنائی گئی ۔ 1962میں قید میں جانے کے صرف چار سال بعد اسے ایک امریکی پائلٹ فرینکس گیری پاور کے تبادلے میں سوویت یونین کے حوالے کر دیا گیا۔