میں ایک جاننے والے عزیز سے ملنے ان کے گھر گیا۔ اس گاؤں کا نام یاد نہیں پڑتا۔ لیکن جب وہاں داخل ہوا تو وہاں رہنے والے اکثر لوگوں کا معیار زندگی انتہائی پسماندہ تھا۔ گلیاں انتہائی خراب اور کچی تھیں۔ مکانوں کی چار دیواریاں بھی گارے کے ساتھ بنی ہوئیں تھیں۔ جب گاؤں میں داخل ہوا تو بہت سارے بچے جن کی حالت غربت کی وجہ سے انتہائی ناساز تھی وہ گلیوں میں کھیل رہے تھے۔
باوجود سردی کے کسی کے پاؤں میں جوتی نہ تھی اور کسی کے کپڑے انتہائی پھٹی پرانی حالت میں تھے۔ جبمیں گاؤں میں داخل ہوا تو سب بچے اور گلی میں دوسرے لوگ اپنے کام چھوڑ کر مجھے دیکھنے لگے۔ مجھے کچھ عجیب سا لگا لیکن تھوڑی دیر میں بات سمجھ گیا۔ میں اپنے دوست کے گھر پہنچا تو وہ پہلے سے میرے انتظار میں تھا۔ وہ زمیندار تھا اور کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق تھا اس لئے وہاں اس کا گھر سب سے الگ تھلگ اور پکا مکان تھا۔ جو حویلی کی شکل کا تھا۔ خیر اس نے میری کافی آو بھگت کی۔ پھر شام کو بیٹھ کر ہم ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے میں نے اس سے پوچھا کہ یہاں تو لوگوں کی حالت بہت پسماندہ ہے۔ یہ لوگ حق دار بھی ہیں تو میرے خیال سے آپ کو ان کی کچھ مدد کرتے رہنا چاہئے۔ یہ سن کر وہ مسکرا دئیے اور کہا کہ ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں۔فجر کے وقت میں نماز کے لئے اٹھا اور مسجد جو گھر سے چند قدم کے فاصلے پر تھی اس کی طرف چل دیا۔ اندھیرا ابھی کافی تھا اس لئے کسی شخص کو قریب سے جا کر دیکھ کر ہی پہچانا جا سکتا تھا۔ میں گلی سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک شخص چادر اوڑھے کسی گھرمیں کچھ پھینک رہا ہے۔ میں بڑا حیران ہوا اور کچھ سمجھ نہ آیا۔ میں نے نظر انداز کیا۔ اگلے دن پھر فجر کے وقت نماز
کے لئے نکلا تو وہی چادر والا شخص کسی اور گھر میں کچھ پھینک رہا تھا۔ اب تو بڑی حیرانگی ہوئی اور میں سمجھا کہ شائد کوئی چور ہے، لیکن اس کے قریب پہنچنے سے پہلے وہ کسی دوسری گلی کارخ کر چکا تھا۔اب کے بار میں نے فیصلہ کیا کہ اس شخص کے بارے میں ضرور معلوم کروں گا کہ کون ہے۔ تیسرے دن ذرا جلدی اٹھا اور باہر گاؤں کی گلیوں میں نکلا لیکن وہ شخص نظر نہ آیا، میں مسجد کے بجائے کچھ آگے نکل گیا
اور توکیا دیکھا کہ تھوڑا دور وہ شخص کسی اور گلی میں کھڑا تھا۔ میں چھپ کر اسے دیکھنےلگا۔ اس نے پہلے ایک گھر میں کچھ پھینکا پھر دوسرے گھر میں کچھ پھینکا۔ پھر میری طرف آنے لگا، میں ایک طرف ہو کر چھپ گیا کہ دیکھوں یہ کون ہے۔جب قریب آیا تو میں نےاسے دبوچ لیا وہ چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک چادر سے اسکا چہرہ میرے سامنے ہوا تو دیکھا کہ یہ تو میرا دوست ہے۔
بڑی حیرانگی کے عالم میں اس کو چھوڑا اور پوچھا کہ ماجرا کیا؟اس نے نہ بتایا تو میں نے ضد کی کہ اب کے بار تم جیسے چور کے گھر نہ آؤں گا۔ اس نے یہ سنا تو رونے لگا اور کہا کہ گھر چل کے بتاتا ہوں۔ جب نماز کے بعد گھر آئے تو کہنے لگا یہ راز اگر راز ہی رہنے دیتے تو اچھا تھا۔ لیکن تم ضد کرتے ہو تو بولے دیتا ہوں۔کہنے لگا ہمارے گاؤں میں اکثر لوگ غریب ہیں لیکن بہت خودار ہیں۔ ضرورت کے باوجود کسی کے
سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ مجھے جونہی کسی ضرورتمند کا پتہ چلتا ہے تو اپنی استطاعت کے مطابق فجر کے وقت اس کے گھر کچھ پیسے گرا دیتا ہوں۔ میں نے پوچھا یہ تو آپ اسے بلا کر بھی دے سکتے ہیں یہ عجیب طریقہ اختیار کرنے کی کیا وجہ ہے۔کہنے لگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ قیامت کے دن اس شخص کو اللہ تعالٰی کے عرش کا ٹھنڈا سایہ نصیب ہو گا جو کسی کی ضرورت کو ایسے پورا کرے
کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔اور کہنے لگا کہ عمل تو پاس ہیں نہیں سوچا یہ عمل خلوص دل سے کر لیتا ہوں شائد یہ اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو جائے اور روز قیامت یہی عمل مجھے اللہ رب العزت کے ٹھنڈے سایہ میں لے جائے۔لیکن اب تو وہ بھی امید نہیں کہ آپ نے میرا راز فاش کر دیا۔میں جب بھی یہ واقعہ یاد کرتا ہوں تو آنکھ بھر آتی ہیں کہ کہاں کہاں کیسے کیسے ہیرے اللہ کی ذات نے پیدا فرمائے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھنے والے اور آخرت کی فکر کرنے والے ہیں۔ ہم کیا جانیں کون کہاں کیسے کیسے دل پسندعمل کر کے اپنے رب کو راضی کر رہا ہے۔