پشاور(مانیٹرنگ ڈیسک)خیبرپختونخواحکومت کی جانب سے پشاور میں میٹروبس منصوبے کے اعلان پرسیاسی،صحافتی اور عوامی حلقوں میں ایک دلچسپ بحث کا آغاز ہوگیاہے۔تمام حلقوں نے کے پی کے کی حکومت کے اِس اقدام کو ایک جانب خوش آئند قرار تو دیا ہے مگر دوسری جانب تحریک انصاف کے ماضی کے میٹرو بس سروس کے مخالفانہ موقف کو ایک اور یوٹرن قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا
رہا ہے ۔سوشل میڈیا پر متحرک مقبول صحافی مرتضیٰ علی شاہ کے ٹوئیٹر پیغام ’’کے پی کے گورنمنٹ کے چوتھے سال،پی ٹی آئی کو آخرکار احساس ہو گیا کہ میٹروبس وقت کی ضرورت ہے، عوام کو اُنکے بنیادی حقوق سے صرف اس لئے محروم رکھا گیا کہ یہ اقدام وزیراعلی شہباز شریف کا ہے ‘‘ وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے اِس شعر کے ساتھ مذکورہ پیغام کو ری ٹویٹ کیا ہے کہ
وہ جو کترا کے نکلتا تھا مرے رسے سے
اب سنا ہے کہ مرے نقش قدم ڈھونڈتا ہے
گزشتہ دنوں شہباز شریف نے سپیڈوبس سروس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھی کہا تھا کہ عوام کی فلاح کیلئے ہمارے اقدام کو جنگلا بس کہنے والے آج خود منصوبے بنا رہے ہیں ۔ہمیں خوشی ہوئی، کاش یہ پروجیکٹ وقت ضائع کئے بغیر بہت پہلے بن جاتا۔
سوشل میڈیا پربھی عمران خان پراُن کے بیانات کا تذکرہ کرتے ہوئے طنز و مزاح کے نشتر چلائے جا رہے ہیں کہ ’’میاں صاحب! نئا پاکستان میٹرو بنانے سے نہیں بنتا‘‘، ’’میٹرو کے بجائے تعلیم، انصاف اور سیکیورٹی پر توجہ دینی چاہے‘‘، ’’میٹرو اس لئے بن رہی ہے کہ پیسا کسی کی جیب میں جانا ہے‘‘،’’میٹرو سے بھوکے کا پیٹ نہیں بھرا جاسکتا‘‘،خان صاحب سے پوچھا جا رہا ہے کہ آپ تو دھرنے کے دوران میٹرو پروجیکٹ کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے نہیں تھکتے تھے اورالیکشن کے قریب آتے ہی کیا ہو گیا؟ کچھ کا کہنا ہے کہ دیر آئے درست آئے، کچھ کا موقف ہے کہ خان صاحب کو سمجھ آگئی ہے کہ آئندہ الیکشن میں کے پی کے عوام
پوچھے گی کہ پنجاب میں ایسے میگا پروجیکٹ بنے مگر ہمیں اس سے کیوں مرحوم رکھا گیا۔
یہاں یہ بات بھی دلچسپ اور قابل غور ہے کہ پشاور میٹرو بس منصوبے کیلئے صوبائی حکومت کی جانب سے 37ارب روپے لاگت بتائی گئی تھی تاہم اب منصوبے کی لاگت میں20ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے ۔ تبصرہ نگاروں کے رائے میں 57ارب لاگت بھی کوئی حتمی بجٹ نہیں بلکہ ابھی تخمینہ ہی ہے جس میں اضافے کے امکانات بہت قوی ہیں۔