حضرت ابوجندل رضی اﷲ عنہ مکہ میں مسلمان ہوگئے تھے. قریش نے انہیں قید کر رکھا تھا. صلح حدیبیہ کے موقع پر وہ موقع پا کر زنجیروں سمیت ہی بھاگ کر لشکر اسلامی میں پہنچ گیا. سہیل جو کہ قریش کا وکیل تھا اس نے کہا : اے محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) ! معاہدے کے مطابق ابوجندل کو ہمارے حوالے کیا جائے . نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک عہد نامہ مکمل نہ ہوجائے اس کی شرائط پر عمل نہیں
ہوسکتا.سہیل نے بگڑ کر کہا کہ تب ہم صلح ہی نہیں کرتے. نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم دیا اور ابوجندل قریش کے سپرد کردیئے گئے . قریش نے مسلمانوں کے کیمپ میںاس کی مشکیں باندیں ، پاؤں میں زنجیر ڈالی اور کشاں کشاں لے گئے. نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے جاتے وقت اس قدر فرما دیاتھا کہ ابوجندل ! اﷲ تیری کشائش کے لئے کوئی سبیل نکال دے گا.ابوجندل رضی اﷲ عنہ کی ذلت اور قریش کا ظلم دیکھ کر مسلمانوں کے اندر جوش اور طیش تو پیدا ہوا مگر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا حکم سمجھ کر ضبط کرگئے. ابوجندل رضی اﷲ عنہ نے زندان مکہ میں پہنچ کر دین حق کی تبلیغ شروع کردی. جو کوئی اس کی نگرانی پر مامور ہوتا وہ اسے توحید کی خوبیاں سناتے. اﷲ کی عظمت و جلال بیان کرکے ایمان کی ہدایت کرتا. اﷲ کی قدرت کہ ابوجندل رضی اﷲ عنہ اپنے سچے ارادے اور سعی میں کامیاب ہوجاتا اور وہ شخص مسلمان ہوجاتا، قریش اس دوسرے ایمان لانے والے کو بھی قید کردیتے. اب یہ دونوں مل کر تبلیغ کا کام اسی قید خانہ میں کرتے. الغرض اس طرح ایک ابوجندل رضی اﷲ عنہ کے قید ہو کر مکہ پہنچ جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک سال کے اندر قریباً تین سو اشخاص ایمان لے آئے۔ حضرت ابوجندل رضی اﷲ عنہ مکہ میں مسلمان ہوگئے تھے. قریش نے انہیں قید کر رکھا تھا. صلح حدیبیہ کے موقع پر وہ موقع پا کر زنجیروں سمیت ہی بھاگ کر لشکر اسلامی میں پہنچ گیا. سہیل جو کہ قریش کا وکیل تھا اس نے کہا : اے محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) ! معاہدے کے مطابق ابوجندل کو ہمارے حوالے کیا جائے .
حوالہ: (سیرت ابن ہشام)
( صحیح اسلامی واقعات، صفحہ نمبر 91-90)