ایک آدمی پانی کے دو گھڑے دریا سے بھر کر ایک بڑے سے ڈنڈے کے دونوں اطراف لٹکا لیتا اور پھر وہ پانی روز اپنے مالک کے بنگلے میں جا کر بیچ آتا۔ دونوں میں سے ایک گھڑا بلکل ٹھیک تھا جبکہ دوسرا ٹوٹا ہوا تھا۔ جو گھڑا ٹوٹا ہوا تھا، اس میں سے سارے راستے پانی رستا رہتا تھا اور جب وہ آدمی مالک کے گھر پہنچتا تھا تو اس گھڑے میں صرف آدھا پانی بچتا تھا۔ وہ ٹوٹا ہوا گھڑا بہت پشیمان ہوتا تھا۔
دو سال اسی طرح روز خادم پانی بھر کر لیکر جاتا تھا۔ ایک دن دوسرا گھڑا اس آدمی سے بولا کہ میں کتنا شاندار ہوں اپنا کام کتنی ہوشیاری سے کرتا ہوں اور اس کو دیکھو آدھا پانی تو راستے میں ہی گرا دیتا ہے بیوقوف۔آدمی نے ٹوٹے ہوئے گھڑے کی طرف دیکھا۔ وہ بیچارہ پہلے ہی اتنا شرمندہ تھا اور پشیمان ہو کر بولا کہ مجھے معاف کر دو میں تمہارے کسی کام کا نہیں ، میں کسی قابل نہیں۔ آدمی بولا کہ ذرا اپنی سائیڈ کو نوٹ کرنا جب میں مالک کے بنگلے جا رہا ہوں گا۔ ٹوٹا ہوا گھڑا دیکھنے لگ گیا۔ اس نے راستے میں دیکھا تو اس کی سائیڈ پر ڈھیروں پھول کھلے ہوئے تھے اور چندن سی دھوپ میں اتنی دلکش لگ رہے تھے، پھول دیکھ کر ٹوٹا ہوا گھڑا خوش ہو گیا۔ جب مالک کے گھر پہنچ گئے تو خادم نے گھڑے سے بولا کہ یہ پھول صرف تمہاری سائیڈ پر کھلے ہوئے ہیں۔دوسرے گھڑے کی طرف کوئی پھول نہیں ہیں۔ جانتے ہو کیوں، کیونکہ تم سے میٹھا پانی رستا ہے اور اس سے یہاں پھول نکل آئے ہیں۔ میں نے ادھر بیج بو دیے تھے اور ان پر تمہارا پانی گرتا تھا۔ یہ حسین پھول میں روز بعد میں چن کر اپنے مالک کی کھانے کی ٹیبل پر سجاتا ہوں۔ دو سال سے تمہارا آدھا پانی میرے لیے ایک رحمت ہے، کیونکہ روز اتنے پیارے پھول میز پر دیکھ کر میرا مالک مجھے شاباش دیتا ہے اور اس سے میری ساری تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے۔ کسی کا کوئی بھی عیب کبھی بے مقصد نہیں ہوتا۔
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں