لاہور ( آن لائن ) پاکستان میں موسم سرما کے دوران توقع سے کم بارشوں کے باعث ملک کے دونوں بڑے ڈیموں میں پانی کا ذخیرہ ختم ہوگیا ہے اور آئندہ 36 گھنٹوں میں تربیلا اورمنگلا خالی ہو جائیں گے۔ میڈیا رپو رٹ میںانکشاف ہوا ہے کہ ایک طرف ڈیم خالی ہونے کے قریب تر پہنچ گئے ہیں تو دوسری طرف ہم نے کالا باغ یا کوئی اضافی ڈیم دستیاب نہ ہونے کے باعث رواں واٹر ائر 2016-17 کے فلڈ سیزن میں دو بڑے ڈیموں
کے برابر 12 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر کردیا۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ رواں ربیع سیزن میں گندم اور دیگر فصلوں کے لئے پانی کی قلت 19 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے ڈیموں کے جلد خالی ہونے کے باعث خریف سیزن میں کپاس کی بوائی کے لئے پنجاب اور سندھ کو نہری پانی کی قلت کے لحاظ سے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور دونوں صوبوں کے لئے جمعرات کو منگلا ڈیم سے پانی کی فراہمی 28 ہزار کیوسک سے کم کرکے 22 ہزار کیوسک اورتربیلا ڈیم سے 32 ہزار کیوسک سے کم کرکے 28 ہزار کیوسک کردی گئی ہے۔وزارت پانی و بجلی کے حکام نے بتایا ہے کہ تربیلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ صرف 30 ہزار ایکڑ فٹ اور منگلا میں 40 ہزار ایکڑ فٹ رہ گیا ہے جس کے باعث دونوں ڈیموں میں پانی کی سطح ہفتے کے روز ڈیڈ لیول تک گر جائے گی جس کے بعد صوبوں کو روزانہ کی بنیاد پر دریاؤں میں بہنے والے پانی کی تقسیم ہوگی۔ ارسا کے چیئرمین راؤ ارشاد احمد نے گفتگو میں بتایا ہے کہ یکم اپریل کو شروع ہونے والے ابتدائی خریف میں نہری پانی کی قلت ہوگی اورکپاس کی بوائی کے لئے صوبوں کی ڈیمانڈ کے مطابق سپلائی ممکن نہیں ہوسکے گی تاہم اس بارے میں قلت کے حجم کا اندازہ لگانے کے سلسلے میں ارسا نے چاروں صوبوں کے ماہرین پر مشتمل ارسا کی ٹیکنیکل کمیٹی کا اجلاس اگلے 15 روز میں بلانے کا اصولی
فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تربیلا ڈیم سطح سمندر کے لحاظ سے اپنے ڈیڈ لیول 1380 فٹ سے صرف 5 فٹ اور منگلا ڈیم اپنے مقررہ ڈیڈ لیول 1040 فٹ سے صرف 15 فٹ اور رہ گیا ہے۔محکمہ انہار پنجاب کے حکام کا کہنا ہے ربیع کے لئے 19 فیصد کم فراہمی کو ٹیوب ویل اور بعض علاقوں میں بروقت بارشوں کے باعث پورا کیا گیا ہے۔آبی امور کے ماہر اور لاہور ایوان صنعت و تجارت کے صدر عبدالباسط نے گفتگو میں
کہا ہے کہ حکومتوں کی طرف سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو بالائے طاق رکھنے کا شاخسانہ ملک کے صنعتی اور زرعی شعبے بھگت رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کی بجائے کالاباغ ڈیم بنانے کے لئے اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کرنا ہوگی بصورت دیگر پانی کی قلت کا ماتم قیامت تک ختم نہیں ہوگا۔