بھارت کے شہر آگرہ میں قائم تاج محل ساری دنیا میں محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے جو دراصل مغل بادشاہ شاہجہاں کی بیوی ممتاز کا مقبرہ ہے جو اس کے شوہر نے اس کی یاد اور محبت میں تعمیر کروایا تھا اور جس کی تعمیر کے بعد شاہجہاں کے حکم سے تاج محل کی تعمیر میں حصہ لینے والے تمام ماہرین تعمیرات ، مزدوروں اور کاریگروں کے ہاتھ قلم کر دئیے گئے تھے تاکہ اس جیسا شاہکار دوبارہ تعمیر نہ ہو سکے مگر یقین کریں کہ عثمانی دور میں مسجد نبویﷺ کی تعمیر تعمیرات کی دنیا میں محبت اور عقیدت کی معراج ہے۔ ترکوں نے جب مسجد نبوی کی تعمیر کا ارادہ کیا تو
انہوں نے اپنی وسیع و عریض ریاست میں اعلان کیا کہ انہیں عمارت سازی سے متعلق فنون کے ماہر درکار ہیں، اعلان کرنے کی دیر تھی کہ ہر علم کے مانے ہوئے لوگوں نے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ سلطان کے حکم سے استنبول کے باہر ایک شہر بسایا گیا جس میں اطراف عالم سے آنے والے ماہرین کو الگ الگ محلوں میں بسایا گیا، ا س کے بعد عقیدت اور احترام کا ایسا باب شروع ہوا جس کی نظیر مشکل ہے، خلیفہ وقت جو دنیا کا سب سے بـڑا فرماں روا تھا شہر میں آیا اور ہر شعبے کے ماہر کو تاکید کی کہ اپنے ذہین ترین بچے کو اپنا فن اس طرح سکھائے کہ وہ اس فن میں یکتا و بے مثال ہو جائے اسی اثنا میں ترک حکومت اس بچے کو حافظ قرآن اور شہسوار بنائے گی۔دنیا کی تاریخ کا یہ عجیب و غریب منصوبہ کئی سال جاری رہا، 25سال بعد نوجوانوں کی ایسی جماعت تیار ہوئی جو نہ صرف اپنے شعبے میں یکتائے روزگار تھے بلکہ ہر شخص حافظ قرآن اور باعمل مسلمان بھی تھا، یہ لگ بھگ500لوگ تھے اسی دوران ترکوں نے پتھروں کی کانیں دریافت کیں ، جنگلوں سے لکڑیاں کٹوائیں، تختے حاصل کئے گئے اور شیشے کا سامان بہم پہنچایا گیا، یہ سارا سامان نبی کریم ﷺ کے شہر پہنچایا گیا تو ادب کا یہ عالم تھا کہ اسے رکھنے کیلئے مدینہ سے دور ایک بستی بسائی گئی تاکہ شور سے مدینہ کا ماحول خراب نہ ہو، نبی کریم ﷺ کے ادب کی
وجہ سے اگر کسی پتھر میں ترمیم کی ضرورت پڑتی تو اسے واپس اسی بستی بھیجا جاتا ، ماہرین کو حکم تھا کہ ہر شخص کام کے دوران باوضو رہے اور درود شریف اور تلاوت قرآن میں مشغول رہے، حجرہ مبارک کی جالیوں کو کپڑے سے لپیٹ دیا گیا کہ گردوغبار اندر روضہ مبارک میں نہ جائے، ستون لگائے گئے کہ ریاض الجنۃ اور روضہ مبارک پر مٹی نہ گرے، یہ کام پندرہ سال تک چلتا رہا اور تاریخ عالم گواہ ہے ایسی محبت ایسی عقیدت سے کوئی تعمیر نہ کبھی پہلے ہوئی اور نہ کبھی بعد میں ہو گی۔