کابل (آئی این پی)افغانستان نے کابل میں تعینات پاکستانی سفیر کو 2 ہفتوں کے دوران تیسری مرتبہ طلب کرکے سرحد پار سے گولہ باری کرنے پر احتجاج ریکارڈ کرایا ہے ۔پیر کو افغان خبررساں ادارے ’’خاما پریس ‘‘ کے مطابق کابل میں تعینات پاکستان کے سفیر سید ابرار حسین کو دو ہفتوں سے کم وقت میں تیسری مرتبہ طلب کرکے سرحد پا ر سے گولہ پر احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔
افغان وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہاکہ سید ابرار حسین کو دوپہر کے وقت طلب کرکے مشرقی صوبہ کنڑ کے علاقوں خاص کنڑ،درہ شالی ،سرکانو،درہ نولی ،شادی خیل اور درہ شنگوری میں مبینہ طور پر سرحد پار سے کی جانے والی گولہ باری پر احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ۔بیا ن میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ پاکستانی ہیلی کاپٹروں نے خاص کنٹر ضلع میں افغان فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور سرحد پار سے ہونے والی گولہ باری کے نتیجے میں چار بچے جاں بحق ہوگئے ۔فرسٹ پولیٹیکل سیکرٹری موسی آریفی نے پاکستانی سفیر سے افغان حکام کی جانب سے سخت احتجاج ریکارڈ کرایا۔اس سے قبل گزشتہ روز اتوار کو افغان دفترخارجہ نے کابل میں پاکستان سفیر کوطلب کرکے سرحدوں کی بندش پراپنی تشویش سے آگاہ کیا۔پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق افغانستان میں پاکستانی سفیرابرار حسین کو افغان دفترخارجہ میں طلب کیاگیا۔افغان دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان کی جانب سے سرحد بند ہونے کے وجہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے’۔افغان دفتر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ‘سرحد کھولنے کے لیے پاکستان کوخط بھی لکھا گیاتھا۔دفتر خارجہ کے مطابق پاکستانی سفیرنیجواب دیا کہ ملک میں آپریشن ردالفساد شروع کیاگیاہے اور سرحد بند کرنے کا مقصد دہشت گردوں کا پاکستان میں داخلہ روکنا ہے۔
پاکستانی سفیر نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لییبارڈر مینجمنٹ ضروری ہے۔ابرار حسین نے کہا کہ ‘پاک افغان سرحد پر واقع قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں بھی سیکیورٹی کے انتظامات سخت کرکیافغان سرحد کوآمدورفت اور تجارت کیلئے بند کردیاگیا ہے جبکہ شہر میں داخل ہونے والی گاڑیوں اور لوگوں کی باقاعدہ تلاشی لی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ افغان دفتر خارجہ میں پاکستانی سفیر کی طلبی کے کچھ دیر بعد جنوبی وزیرستان میں سرحد پار سے ہونے والی فائرنگ میں ایک پاکستانی فوجی زخمی ہوگیا۔واضح رہے کہ 13 فروری سے شروع ہونے والی دہشت گردی کی نئی لہر کے بعد پاکستان نے افغانستان کے ساتھ ملنے والی طورخم بارڈر کراسنگ غیر معینہ مدت کے لیے بند کردی تھی۔اس کے بعد پاک فوج کی جانب سے ملک گیر آپریشن ‘رد الفساد’ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جس کے تحت پاک افغان سرحد پر مشتبہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان نے 76 انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست بھی افغان حکام کے حوالے کی تھی اور ان سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان میں تعینات امریکی ریسولوٹ سپورٹ مشن کے کمانڈر جنرل جان نکلسن کو بھی فون کیا تھا اور افغانستان سے پاکستان پر مسلسل دہشت گردی پر احتجاج کیا تھا۔