ایک مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بکریوں کا ریوڑ چرا رہے تھے کہ ایک آدمی قریب سے گزرا۔ گزرتے ہوئے اس نے اللہ تعالیٰ کی شان میں یہ الفاظ ذرا بلند آواز سے کہے۔ ’’سبحان ذی الملک و الملکوت سبحان ذی العزۃ و العظمۃ الھیبۃ و القدرۃ و الکبریاء و الجبروت‘‘ پاک ہے وہ زمین کی بادشاہی اور آسمان کی بادشاہی والا‘ پاک ہے وہ عزت بزرگی‘ ہیبت اور قدرت والا اور بڑائی و دبدبے والا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے محبوب حقیقی کی تعریف اتنے پیارے الفاظ میں سنی تو دل مچل اٹھا۔ فرمایا کہ اے بھائی یہ الفاظ ایک مرتبہ اور کہہ دینا۔ اس نے کہا کہ مجھے اس کے بدلے کیا دیں گے۔ آپؓ نے فرمایا آدھا ریوڑ۔ اس نے یہ الفاظ دوبارہ کہہ دیئے آپ کو اتنا مزہ آیا کہ بے قرار ہو کر فرمایا اے بھائی یہ الفاظ ایک مرتبہ پھر کہہ دیجئے۔ اس نے کہا اب مجھے اس کے بدلے کیا دیں گے۔ فرمایا بقیہ آدھا ریورڑ۔ اس نے یہ الفاظ سہہ بارہ کہہ دیئے آپ کو اتنا سرور ملا کہ بے ساختہ کہا اے بھائی! یہ الفاظ ایک مرتبہ اور کہہ دیجئے اس نے کہا اب تو آپ کے پاس دینے کیلئے کچھ بچا نہیں اب آپ کیا دیں گے۔ فرمایا اے بھائی میں تیری بکریاں چرایا کروں گا تم ایک مرتبہ میرے محبوب کی تعریف اور کر دو۔ اس نے کہا حضرت ابراہیم خلیل اللہ آپ کو مبارک ہو میں تو فرشتہ ہوں مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے کہ جاؤ اور میرا نام لو اور دیکھو کہ وہ میرے نام کے کیا دام لگاتا ہے۔
محبت پر لاکھ روپے کا شعر
خواجہ عزیز الحسن رحمتہ اللہ علیہ حضرت اقدس تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ مجاز تھے۔ انہوں نے ایک شعر لکھا اور اپنے پیر و مرشد کو سنایا‘ حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ نے شعر سن کر فرمایا کہ اگر میں صاحب استطاعت ہوتا تو ایک لاکھ روپے انعام دے دیتا۔وہ شعر کیا تھا؟ بڑا مختصر‘ بہت سادہ دل میں اتر جانے والا‘ عجیب بات کہی مگر حکایت دل بیان کر دی فرمایا:
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی